Aarif Akhtar Naqvi

عارف اختر نقوی

عارف اختر نقوی کی نظم

    میرا سایہ

    مجھے تم سے کوئی محبت نہ الفت تعلق بھی اب ہے برائے تعلق مگر تم سے جب بھی ملا ہوں مجھے میرا سایہ جسے میں وہیں چھوڑ آیا جہاں وہ خیالوں کی وادی میں خواہش کی تتلی کے پیچھے اڑا جا رہا تھا تمہاری گھنی زلف کی بدلیوں میں زمیں سے بہت دور لیکن میرے پیر میں ڈور ایسی بندھی تھی کہ جس نے مجھے ...

    مزید پڑھیے

    دعا

    کیا یہی زندگی ہے کہ ہم اپنے ہونے کی خوشیاں مناتے رہیں جسم کی لذتوں نفس کی شہوتوں میں بھٹکتے رہیں سارے بے آسرا غم گزیدوں کو عبرت کا ذریعہ سمجھ کر اپنی آسائشوں نعمتوں کے لیے سجدۂ شکر میں اپنے سر کو جھکاتے رہیں کیا یہی زندگی ہے کیا یہی زندگی ہے کہ ہم غاصبوں زرپرستوں سے نظریں چرا ...

    مزید پڑھیے

    بشر زندہ ہے

    میری بستی میں بہت دیر سے سناٹا ہے نہ کہیں نالہ و شیون نہ کوئی شور بکا پر کہیں دور بہت دور کسی کوچے سے ہولے ہولے سسکنے کی صدا آئی ہے سن کے یہ گریۂ افتادہ تسلی سی ہوئی میری بستی میں ابھی کوئی بشر زندہ ہے ختم ہو جائے گی یہ رات سحر زندہ ہے کیا عجب کہ یہی موہوم سی آواز یہی سسکاری ایک دن ...

    مزید پڑھیے

    بے یقینی کا صحرا

    اے خدا تیرا لاچار بندہ تشنہ لب بے سہارا بے یقینی کے صحرا میں تنہا کھڑا ہے کتابوں سے لہجوں سے لفظوں سے میرا یقیں اٹھ چکا ہے ہر طرف شور ہے کھوکھلے الفاظ و اظہار کا صرف پرچار کا سب عقیدے نظریے محض اشتہارات ہیں ڈھول پیٹے چلے جا رہے ہیں اس قدر شور ہے کہ سماعت بھی پتھرا گئی ہے اس قدر ...

    مزید پڑھیے

    کاش

    میں شہر تمنا کی تاراج نگری کے ملبے میں لاچار و تنہا کبھی اس کھنڈر پر کبھی اس کھنڈر تک بھٹکتا ہوا ڈھونڈتا پھر رہا ہوں اپنے معصوم مسمار خوابوں کا ملبہ تبھی اک طرف کو نظر جو گئی تو دکھائی دیا ٹوٹے پھوٹے جلائے گئے کچھ مکاں ایک مینار مسجد کلش ایک مندر کا اوندھا پڑا ہے کریدا تو ملبے کے ...

    مزید پڑھیے