Aarif Aazmi

عارف اعظمی

عارف اعظمی کی غزل

    شہر میں لاکھ چراغاں ہو تو کیا ہوتا ہے

    شہر میں لاکھ چراغاں ہو تو کیا ہوتا ہے میرے گھر میں وہی مٹی کا دیا ہوتا ہے درد سینے میں مرے جب بھی مہک اٹھتا ہے زخم یادوں کا تری اور ہرا ہوتا ہے داستاں غم کی سناؤں یہ ضروری تو نہیں نفس مضمون تو چہرے پہ لکھا ہوتا ہے شدت غم سے نہ مٹ جائے کہیں میرا وجود روز اک غم مری چوکھٹ پہ کھڑا ...

    مزید پڑھیے

    شمع سر دھنتی رہی محفل میں پروانوں کے ساتھ

    شمع سر دھنتی رہی محفل میں پروانوں کے ساتھ آپ یاد آتے رہے کچھ تلخ عنوانوں کے ساتھ شام غم شام جدائی درد دل درد جگر سارے قصے ختم ہو جائیں گے دیوانوں کے ساتھ شیشہ و پیمانہ ہی زیبائش مے خانہ ہیں چھیڑ شیشے کی نہیں اچھی ہے پیمانوں کے ساتھ کیسا وہ دلچسپ منظر ہوگا اے جان عزیز وہ ہوں ...

    مزید پڑھیے

    چمن والو حقیقت ہم سے بتلائی نہیں جاتی

    چمن والو حقیقت ہم سے بتلائی نہیں جاتی گلوں کے دل پہ جو بیتی وہ سمجھائی نہیں جاتی چمن کا حسن بالآخر گلوں کی آبرو ٹھہرا یہ عزت شاہ راہ عام پہ لائی نہیں جاتی غم دوراں کی الجھن ہو کہ وحشت ہو محبت کی شکستہ دل کی حالت بر زباں لائی نہیں جاتی ارے کم ظرف مے نوشی کا یہ کوئی سلیقہ ہے سر ...

    مزید پڑھیے

    کبھی خود کو کبھی خوابوں کو صدا دیتے ہیں

    کبھی خود کو کبھی خوابوں کو صدا دیتے ہیں کیسی دیوار اٹھاتے ہیں گرا دیتے ہیں آؤ دو چار قدم چل کے بھی دیکھیں یارو ہم سفر اپنے کہاں ہم کو دغا دیتے ہیں جانے کیا سوچ کے اے دوست یہ ارباب چمن زہر پاشی سے وہ پودوں کو جلا دیتے ہیں یہ گزر گاہ کے پتھر تری ٹھوکر میں سہی ہر قدم پر تجھے منزل کا ...

    مزید پڑھیے

    بن کے خوشبو جو چل پڑی ہے ابھی

    بن کے خوشبو جو چل پڑی ہے ابھی کوئی تازہ کلی کھلی ہے ابھی عین ممکن ہے یاد ہو ان کی دل میں اک شمع سی جلی ہے ابھی کیوں کھٹکتی ہے سب کی نظروں میں شاخ نازک پہ جو کلی ہے ابھی اس کے سائے میں امن پلتا تھا وہ جو دیوار اک گری ہے ابھی بے خبر کیسے ہو گئے رہبر زندگی راہ میں پڑی ہے ...

    مزید پڑھیے

    وہم و گماں جو حد سے گزرتے چلے گئے

    وہم و گماں جو حد سے گزرتے چلے گئے ہم ریزہ ریزہ ہو کے بکھرتے چلے گئے جلوہ تمہارا ایک نظر دیکھنے کے بعد دل میں نقوش عشق نکھرتے چلے گئے اعجاز کم نہیں تھا کچھ ان کے جمال کا ہم دید کی طلب میں سنورتے چلے گئے دیں منزلوں نے ان کو صدائیں بہت مگر دیوانے اپنی دھن میں گزرتے چلے گئے شاید ...

    مزید پڑھیے

    بہار آئی مگر خیالی

    بہار آئی مگر خیالی صبا نے پھولوں پہ خاک ڈالی میں کس کو اپنا حریف سمجھوں کہ سب کی صورت ہے بھولی بھالی حقیقتوں پہ نگاہ رکھو نہیں ہے سب کچھ یہاں خیالی کلی نے شاید کہ پٹ ہیں کھولے اثر چمن میں ہے ڈالی ڈالی نہ برق سوزاں نہ باد‌ صر‌صر گلوں کا قاتل چمن کا والی وہی ہے سب سے عظیم ...

    مزید پڑھیے