Aanis Moin

آنس معین

پاکستان کے ممتاز شاعر جنہوں نے محض ستائیس سال کی عمر میں خودکشی کر لی

A promising poet from Pakistan who committed suicide at the age of 27

آنس معین کی غزل

    جیون کو دکھ دکھ کو آگ اور آگ کو پانی کہتے

    جیون کو دکھ دکھ کو آگ اور آگ کو پانی کہتے بچے لیکن سوئے ہوئے تھے کس سے کہانی کہتے سچ کہنے کا حوصلہ تم نے چھین لیا ہے ورنہ شہر میں پھیلی ویرانی کو سب ویرانی کہتے وقت گزرتا جاتا اور یہ زخم ہرے رہتے تو بڑی حفاظت سے رکھی ہے تیری نشانی کہتے وہ تو شاید دونوں کا دکھ اک جیسا تھا ورنہ ہم ...

    مزید پڑھیے

    اک کرب مسلسل کی سزا دیں تو کسے دیں

    اک کرب مسلسل کی سزا دیں تو کسے دیں مقتل میں ہیں جینے کی دعا دیں تو کسے دیں پتھر ہیں سبھی لوگ کریں بات تو کس سے اس شہر خموشاں میں صدا دیں تو کسے دیں ہے کون کہ جو خود کو ہی جلتا ہوا دیکھے سب ہاتھ ہیں کاغذ کے دیا دیں تو کسے دیں سب لوگ سوالی ہیں سبھی جسم برہنہ اور پاس ہے بس ایک ردا دیں ...

    مزید پڑھیے

    ملن کی ساعت کو اس طرح سے امر کیا ہے

    ملن کی ساعت کو اس طرح سے امر کیا ہے تمہاری یادوں کے ساتھ تنہا سفر کیا ہے سنا ہے اس رت کو دیکھ کر تم بھی رو پڑے تھے سنا ہے بارش نے پتھروں پر اثر کیا ہے صلیب کا بار بھی اٹھاؤ تمام جیون یہ لب کشائی کا جرم تم نے اگر کیا ہے تمہیں خبر تھی حقیقتیں تلخ ہیں جبھی تو! تمہاری آنکھوں نے خواب ...

    مزید پڑھیے

    وہ کچھ گہری سوچ میں ایسے ڈوب گیا ہے

    وہ کچھ گہری سوچ میں ایسے ڈوب گیا ہے بیٹھے بیٹھے ندی کنارے ڈوب گیا ہے آج کی رات نہ جانے کتنی لمبی ہوگی آج کا سورج شام سے پہلے ڈوب گیا ہے وہ جو پیاسا لگتا تھا سیلاب زدہ تھا پانی پانی کہتے کہتے ڈوب گیا ہے میرے اپنے اندر ایک بھنور تھا جس میں میرا سب کچھ ساتھ ہی میرے ڈوب گیا ہے شور ...

    مزید پڑھیے

    باہر بھی اب اندر جیسا سناٹا ہے

    باہر بھی اب اندر جیسا سناٹا ہے دریا کے اس پار بھی گہرا سناٹا ہے شور تھمے تو شاید صدیاں بیت چکی ہیں اب تک لیکن سہما سہما سناٹا ہے کس سے بولوں یہ تو اک صحرا ہے جہاں پر میں ہوں یا پھر گونگا بہرا سناٹا ہے جیسے اک طوفان سے پہلے کی خاموشی آج مری بستی میں ایسا سناٹا ہے نئی سحر کی چاپ ...

    مزید پڑھیے

    پتھر ہیں سبھی لوگ کریں بات تو کس سے (ردیف .. ن)

    پتھر ہیں سبھی لوگ کریں بات تو کس سے اس شہر خموشاں میں صدا دیں تو کسے دیں ہے کون کہ جو خود کو ہی جلتا ہوا دیکھے سب ہاتھ ہیں کاغذ کے دیا دیں تو کسے دیں سب لوگ سوالی ہیں سبھی جسم برہنہ اور پاس ہے بس ایک ردا دیں تو کسے دیں جب ہاتھ ہی کٹ جائیں تو تھامے گا بھلا کون یہ سوچ رہے ہیں کہ عصا ...

    مزید پڑھیے

    یہ قرض تو میرا ہے چکائے گا کوئی اور

    یہ قرض تو میرا ہے چکائے گا کوئی اور دکھ مجھ کو ہے اور نیر بہائے گا کوئی اور کیا پھر یوں ہی دی جائے گی اجرت پہ گواہی کیا تیری سزا اب کے بھی پائے گا کوئی اور انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور تب ہوگی خبر کتنی ہے رفتار تغیر جب شام ڈھلے لوٹ کے ...

    مزید پڑھیے

    عجب تلاش مسلسل کا اختتام ہوا

    عجب تلاش مسلسل کا اختتام ہوا حصول رزق ہوا بھی تو زیر دام ہوا تھا انتظار منائیں گے مل کے دیوالی نہ تم ہی لوٹ کے آئے نہ وقت شام ہوا ہر ایک شہر کا معیار مختلف دیکھا کہیں پہ سر کہیں پگڑی کا احترام ہوا ذرا سی عمر عداوت کی لمبی فہرستیں عجیب قرض وراثت میں میرے نام ہوا نہ تھی زمین میں ...

    مزید پڑھیے

    ہو جائے گی جب تم سے شناسائی ذرا اور

    ہو جائے گی جب تم سے شناسائی ذرا اور بڑھ جائے گی شاید مری تنہائی ذرا اور کیوں کھل گئے لوگوں پہ مری ذات کے اسرار اے کاش کہ ہوتی مری گہرائی ذرا اور پھر ہاتھ پہ زخموں کے نشاں گن نہ سکو گے یہ الجھی ہوئی ڈور جو سلجھائی ذرا اور تردید تو کر سکتا تھا پھیلے گی مگر بات اس طور بھی ہوگی تری ...

    مزید پڑھیے

    کتنے ہی پیڑ خوف خزاں سے اجڑ گئے

    کتنے ہی پیڑ خوف خزاں سے اجڑ گئے کچھ برگ سبز وقت سے پہلے ہی جھڑ گئے کچھ آندھیاں بھی اپنی معاون سفر میں تھیں تھک کر پڑاؤ ڈالا تو خیمے اکھڑ گئے اب کے مری شکست میں ان کا بھی ہاتھ ہے وہ تیر جو کمان کے پنجے میں گڑ گئے سلجھی تھیں گتھیاں مری دانست میں مگر حاصل یہ ہے کہ زخموں کے ٹانکے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2