سلونی سردیوں کی نظم
پرانے بوٹ ہیں تسمے کھلے ہیں ابھی مٹی کے چہرے ان دھلے ہیں شرابیں اور مشکیزہ سحر کا ابھی ہے جسم پاکیزہ گجر کا ستے چہرے پہ استہزا کا موسم لہو نبضوں سے خالی کر گیا ہے گلے میں ملک کے تعویذ ڈالو بدیسی برچھیوں سے ڈر گیا ہے غزل دالان میں رکھی ہے میں نے مہک ہے سنگترے کی قاش جیسی یہ کیسی مے ...