Aamir Suhail

عامر سہیل

پاکستان کے اہم شاعروں میں شامل، جدید معاشرتی مسائل کو اپنی نظموں اورغزلوں کا موضوع بنانے کے لیے جانے جاتے ہیں

One of the prominent poets of Pakistan known for his unique responses to modern-day social issues in his Ghazals and Nazms

عامر سہیل کی غزل

    ادا ہے خواب ہے تسکین ہے تماشا ہے

    ادا ہے خواب ہے تسکین ہے تماشا ہے ہماری آنکھ میں اک شخص بے تحاشا ہے ذرا سی چائے گری اور داغ داغ ورق یہ زندگی ہے کہ اخبار کا تراشا ہے تمہارا بولتا چہرہ پلک سے چھو چھو کر یہ رات آئینہ کی ہے یہ دن تراشا ہے ترے وجود سے بارہ دری دمک اٹھی کہ پھول پلو سرکنے سے ارتعاشا ہے میں بے زباں ...

    مزید پڑھیے

    لہو رگوں میں سنبھالا نہیں گیا مجھ سے

    لہو رگوں میں سنبھالا نہیں گیا مجھ سے کسی دشا میں اچھالا نہیں گیا مجھ سے سڈول بانہوں میں بھرتا میں لوچ ساون کا وہ سنگ موم میں ڈھالا نہیں گیا مجھ سے میں خواب پڑھتا تھا ہمسائیگی کی ابجد سے مگر وہ حسن خیالا نہیں گیا مجھ سے وہی ہے میرے لہو میں چمک الوہی سی سمے اجالنے والا نہیں گیا ...

    مزید پڑھیے

    سسکیوں ہچکیوں آہوں کی فراوانی میں

    سسکیوں ہچکیوں آہوں کی فراوانی میں الجھنیں کتنی ہیں اس عشق کی آسانی میں یہ ترے بالوں کا تالاب کی تہ کو چھونا حالت خواب میں یا عالم عریانی میں بے حجابانہ کسی لہر کا تجھ تک آنہ پھر ترے جسم کا بہہ جانا گھنے پانی میں کہکشاؤں کا غزالوں کا غزل زادوں کا دور و نزدیک سے آنا تری مہمانی ...

    مزید پڑھیے

    سبز حکایت سرخ کہانی

    سبز حکایت سرخ کہانی تیرے آنچل کی مہمانی سہج سہج اس حسن کا چلنا اس پہ اندھی شب طوفانی اک مصرع وہ جسم اکہرا دوجا میرے لب دہقانی جلد سنہری ہونٹ پیازی اس پہ خواہش کی ارزانی بالوں کا گھنگھور اندھیرا ابھری اینٹوں کی حیرانی پنڈلی سے ٹکراتی پنڈلی اترن کی فتنہ سامانی اک لڑکی کے ...

    مزید پڑھیے

    اب تم کو ہی ساون کا سندیسہ نہیں بننا

    اب تم کو ہی ساون کا سندیسہ نہیں بننا مجھ کو بھی کسی اور کا رستہ نہیں بننا کہتی ہے کہ آنکھوں سے سمندر کو نکالو ہنستی ہے کہ تم سے تو کنارہ نہیں بننا محتاط ہے اتنی کہ کبھی خط نہیں لکھتی کہتی ہے مجھے اوروں کے جیسا نہیں بننا تصویر بناؤں تو بگڑ جاتی ہے مجھ سے ایسا نہیں بننا مجھے ویسا ...

    مزید پڑھیے

    مٹی کی صراحی ہے

    مٹی کی صراحی ہے پانی کی گواہی ہے عشاق نہیں ہم لوگ پر رنگ تو کاہی ہے ہر غنچۂ لب درباں ہر شاخ سپاہی ہے سبزے پہ کھنچا نقشہ اور سرخ سیاہی ہے اک سانولی پت جھڑ کے پشتے پہ تباہی ہے ادھڑی ہوئی قبروں پر کتبوں کی مناہی ہے اے کانچ کی سی پنڈلی یہ شہر سبا ہی ہے

    مزید پڑھیے

    کس ہتھیلی پہ پاپوش سینچے گئے کس کہانی کو بے نام رکھا گیا

    کس ہتھیلی پہ پاپوش سینچے گئے کس کہانی کو بے نام رکھا گیا زانوئے دل پہ کل شب بڑی بھیڑ تھی جس کے برتے پہ انجام رکھا گیا ہم شروع محبت سے نادار تھے اپنی آنکھوں سے ہونٹوں سے بیزار تھے ہم سے کیا پوچھتے ہو لہو کی کھنک جس کے ریشوں میں ابہام رکھا گیا انتہاؤں میں تجھ سے الگ ہو گئے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2