ادا ہے خواب ہے تسکین ہے تماشا ہے
ادا ہے خواب ہے تسکین ہے تماشا ہے ہماری آنکھ میں اک شخص بے تحاشا ہے ذرا سی چائے گری اور داغ داغ ورق یہ زندگی ہے کہ اخبار کا تراشا ہے تمہارا بولتا چہرہ پلک سے چھو چھو کر یہ رات آئینہ کی ہے یہ دن تراشا ہے ترے وجود سے بارہ دری دمک اٹھی کہ پھول پلو سرکنے سے ارتعاشا ہے میں بے زباں ...