Aale Ahmad Suroor

آل احمد سرور

جدید اردو تنقید کے بنیاد سازوں میں شامل ہیں

One of the founders of modern Urdu criticism.

آل احمد سرور کی غزل

    خدا پرست ملے اور نہ بت پرست ملے

    خدا پرست ملے اور نہ بت پرست ملے ملے جو لوگ وہ اپنے نشے میں مست ملے کہیں خود اپنی درستی کا دکھ نہیں دیکھا بہت جہاں کی درستی کے بندوبست ملے کہیں تو خاک نشیں کچھ بلند بھی ہوں گے ہزاروں اپنی بلندی میں کتنے پست ملے یہ سہل فتح تو پھیکی سی لگ رہی ہے مجھے کسی عظیم مہم میں کبھی شکست ...

    مزید پڑھیے

    تو پیمبر سہی یہ معجزہ کافی تو نہیں

    تو پیمبر سہی یہ معجزہ کافی تو نہیں شاعری زیست کے زخموں کی تلافی تو نہیں سایۂ گل میں ذرا دیر جو سستائے ہیں سایۂ دار سے یہ وعدہ خلافی تو نہیں اپنی دنیا سے ملی فرصت یک جست ہمیں آسماں کے لیے اک جست ہی کافی تو نہیں کسی چڑھتے ہوئے سورج کی پرستش نہ کرو دیکھ لو اس میں کوئی شعبدہ بافی ...

    مزید پڑھیے

    نوائے شوق میں شورش بھی ہے قرار بھی ہے

    نوائے شوق میں شورش بھی ہے قرار بھی ہے خرد کا پاس بھی خوابوں کا کاروبار بھی ہے ہزار بار بہاروں نے دکھ دیا مجھ کو نہ جانے کیا کیا ہے بہاروں کا انتظار بھی ہے جہاں میں ہو گئی نا حق تری جفا بدنام کچھ اہل شوق کو دار و رسن سے پیار بھی ہے مرے لہو میں اب اتنا بھی رنگ کیا ہوتا طراز شوق میں ...

    مزید پڑھیے

    وہ احتیاط کے موسم بدل گئے کیسے

    وہ احتیاط کے موسم بدل گئے کیسے چراغ دل کے اندھیرے میں جل گئے کیسے بنا دیا تھا زمانے نے برف کے مانند ہم ایک شوخ کرن سے پگھل گئے کیسے امید جن سے تھی وضع جنوں نبھانے کی وہ لوگ وقت کے سانچے میں ڈھل گئے کیسے ستارے جذب ہوئے گرد راہ میں کیا کیا خیال و خواب کے آئیں بدل گئے کیسے خزاں سے ...

    مزید پڑھیے

    یوں جو افتاد پڑے ہم پہ وہ سہہ جاتے ہیں

    یوں جو افتاد پڑے ہم پہ وہ سہہ جاتے ہیں ہاں کبھی بات جو کہنے کی ہے کہہ جاتے ہیں نہ چٹانوں کی صلابت ہے نہ دریا کا جلال لوگ تنکے ہیں جو ہر موج میں بہہ جاتے ہیں یہ نئی نسل ہے اس واسطے خالی خالی درد جتنے ہیں وہ باتوں ہی میں بہہ جاتے ہیں آمد آمد کسی خورشید جہاں تاب کی ہے پیشوائی کے لیے ...

    مزید پڑھیے

    خیال جن کا ہمیں روز و شب ستاتا ہے

    خیال جن کا ہمیں روز و شب ستاتا ہے کبھی انہیں بھی ہمارا خیال آتا ہے تمہارا عشق جسے خاک میں ملاتا ہے اسی کی خاک سے پھر پھول بھی کھلاتا ہے ڈھلے گی رات تو پھیلے گا نور بھی اس کا چراغ اپنا سر شام جھلملاتا ہے نہ طے ہوئی تری شمع جمال سے بھی جو راہ وہیں پہ میرا جنوں راستہ دکھاتا ہے نہ ...

    مزید پڑھیے

    ہم نہ اس ٹولی میں تھے یارو نہ اس ٹولی میں تھے

    ہم نہ اس ٹولی میں تھے یارو نہ اس ٹولی میں تھے نے کسی کی جیب میں تھے نہ کسی جھولی میں تھے بندہ پرور صرف نظارے پہ قدغن کس لیے پھول پھل جو باغ کے تھے آپ کی جھولی میں تھے آپ کے نعروں میں للکاروں میں کیسے آئیں گے زمزمے جو ان کہی اک پیار کی بولی میں تھے پھر کسی کوفے میں تنہا ہے کوئی ابن ...

    مزید پڑھیے

    جس نے کیے ہیں پھول نچھاور کبھی کبھی

    جس نے کیے ہیں پھول نچھاور کبھی کبھی آئے ہیں اس کی سمت سے پتھر کبھی کبھی ہم جس کے ہو گئے وہ ہمارا نہ ہو سکا یوں بھی ہوا حساب برابر کبھی کبھی یاں تشنہ کامیاں تو مقدر ہیں زیست میں ملتی ہے حوصلے کے برابر کبھی کبھی آتی ہے دھار ان کے کرم سے شعور میں دشمن ملے ہیں دوست سے بہتر کبھی ...

    مزید پڑھیے

    شگفتگیٔ دل ویراں میں آج آ ہی گئی

    شگفتگیٔ دل ویراں میں آج آ ہی گئی گھٹا چمن پہ بہاروں کو لے کے چھا ہی گئی حیات تازہ کے خطروں سے دل دھڑکتا تھا ہوا چلی تو کلی پھر بھی مسکرا ہی گئی نقاب میں بھی وہ جلوے نہ قید ہو پائے کرن دلوں کے اندھیرے کو جگمگا ہی گئی تغافل ایک بھرم تھا غرور جاناں کا مری نگاہ محبت کا رمز پا ہی ...

    مزید پڑھیے

    غیرت عشق کا یہ ایک سہارا نہ گیا

    غیرت عشق کا یہ ایک سہارا نہ گیا لاکھ مجبور ہوئے ان کو پکارا نہ گیا کیا لہو روئے تو آیا ہے بہاروں کا سلام صرف خوابوں سے حقائق کو سنوارا نہ گیا معرکہ عشق کا سر دے کے بھی سر ہو نہ سکا کون راہی تھا جو اس راہ میں مارا نہ گیا وہ بھی وقت آتا ہے ساقی بھی بدل جاتے ہیں مے کدے پر کبھی مستوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4