Aale Ahmad Suroor

آل احمد سرور

جدید اردو تنقید کے بنیاد سازوں میں شامل ہیں

One of the founders of modern Urdu criticism.

آل احمد سرور کی غزل

    ایک دیوانے کو اتنا ہی شرف کیا کم ہے

    ایک دیوانے کو اتنا ہی شرف کیا کم ہے زلف و زنجیر سے یک گونہ شغف کیا کم ہے شوق کے ہاتھ بھلا چاند کو چھو سکتے ہیں چاندنی دل میں رہے یہ بھی شرف کیا کم ہے کون اس دور میں کرتا ہے جنوں سے سودا تیرے دیوانوں کی ٹوٹی ہوئی صف کیا کم ہے آگ بھڑکی جو ادھر بھی تو بچے گی کیا شے شعلۂ شوق کی لو ایک ...

    مزید پڑھیے

    سیاہ رات کی سب آزمائشیں منظور (ردیف .. ا)

    سیاہ رات کی سب آزمائشیں منظور کسی سحر کے اجالے کا آسرا تو ملا نظر ملا نہ سکے ہم سے وہ تو غم کیا ہے کہ دل سے دل کے دھڑکنے کا سلسلہ تو ملا ہے آج اور ہی کچھ زلف تاب دار میں خم بھٹکنے والے کو منزل کا راستہ تو ملا سرشک چشم سے موتی بہت لٹائے گئے تری نگہ کے شہیدوں کو خوں بہا تو ملا جہاں ...

    مزید پڑھیے

    دل دادگان لذت ایجاد کیا کریں

    دل دادگان لذت ایجاد کیا کریں سیلاب اشک و آہ پہ بنیاد کیا کریں کرنا ہے بن کو تازہ نہالوں کی دیکھ بھال بیتی ہوئی بہار کو وہ یاد کیا کریں ہاں جان کر امید کی مدھم رکھی ہے لو اب اور پاس خاطر ناشاد کیا کریں سنگیں حقیقتوں سے کہاں تک ملول ہوں رعنائی خیال کو برباد کیا کریں دیکھو جسے ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں تو مے کدے کا یہ نظام اچھا نہیں لگتا

    ہمیں تو مے کدے کا یہ نظام اچھا نہیں لگتا نہ ہو سب کے لیے گردش میں جام اچھا نہیں لگتا کبھی تنہائی کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کا پیام اچھا نہیں لگتا سلام اچھا نہیں لگتا خدا سے لو لگائیں یا خدائی سے رہے رشتہ فقط اپنی خودی کا احترام اچھا نہیں لگتا جبین پر شکن خاصان عالم کی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    زنجیر سے جنوں کی خلش کم نہ ہو سکی

    زنجیر سے جنوں کی خلش کم نہ ہو سکی بھڑکی اگر یہ آنچ تو مدھم نہ ہو سکی بدلے بہار لالہ و گل نے ہزار رنگ لیکن جمال دوست کا عالم نہ ہو سکی کیا کیا غبار اٹھائے نظر کے فساد نے انسانیت کی لو کبھی مدھم نہ ہو سکی ہم لاکھ بد مزہ ہوئے جام حیات سے جینے کی پیاس تھی کہ کبھی کم نہ ہو سکی جو جھک ...

    مزید پڑھیے

    فغان درد میں بھی درد کی خلش ہی نہیں

    فغان درد میں بھی درد کی خلش ہی نہیں دلوں میں آگ لگی ہے مگر تپش ہی نہیں کہاں سے لائیں وہ سوز و گداز دل والے کہ دلبری کا وہ آہنگ وہ روش ہی نہیں حقیقتوں کے بھی تیور بدل تو سکتے ہیں ہماری بزم میں خوابوں کی وہ خلش ہی نہیں دماغ کیوں نہ ہو ساحل پہ سونے والوں کا کبھی کبھار جو طوفاں کی ...

    مزید پڑھیے

    یہ دور مجھ سے خرد کا وقار مانگے ہے

    یہ دور مجھ سے خرد کا وقار مانگے ہے دل اب بھی شوق کے لیل و نہار مانگے ہے جہاں میں کس کو گوارا ہوئی ہے فکر کی دھوپ ہر اک، کوئی شجر سایہ دار مانگے ہے زبان لالہ و گل میں بسی ہوئی ہے مگر زمانہ لفظ میں خنجر کی دھار مانگے ہے اکیلے پن کا یہ احساس ہم نفس کی تلاش بڑھی ہوئی جو یہ تلخی ہے ...

    مزید پڑھیے

    خوابوں سے یوں تو روز بہلتے رہے ہیں ہم

    خوابوں سے یوں تو روز بہلتے رہے ہیں ہم کتنی حقیقتوں کو بدلتے رہے ہیں ہم اپنے غبار میں بھی ہے وہ ذوق سرکشی پامال ہوکے عرش پہ چلتے رہے ہیں ہم سو سو طرح سے تجھ کو سنوارا ہے حسن دوست سو سو طرح سے رنگ بدلتے رہے ہیں ہم ہر دشت و در میں پھول کھلانے کے واسطے اکثر تو نوک خار پہ چلتے رہے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    ہر اک جنت کے رستے ہو کے دوزخ سے نکلتے ہیں

    ہر اک جنت کے رستے ہو کے دوزخ سے نکلتے ہیں انہیں کا حق ہے پھولوں پر جو انگاروں پہ چلتے ہیں حقائق ان سے ٹکرا کر نئے سانچوں میں ڈھلتے ہیں بڑے ہی سخت جاں ہوتے ہیں جو خوابوں پہ پلتے ہیں گماں ہوتا ہے جن موجوں پہ اک نقش حبابی کا انہی سوئی ہوئی موجوں میں کچھ طوفان پلتے ہیں وہ رات آخر ...

    مزید پڑھیے

    ہم برق و شرر کو کبھی خاطر میں نہ لائے

    ہم برق و شرر کو کبھی خاطر میں نہ لائے اس فتنۂ دوراں کو مگر دیکھ نہ پائے گو قطرے میں دریاؤں کا طوفان سمائے پر شوق کی روداد کب الفاظ میں آئے زلفوں کو دیا ہے رخ زیبا نے عجب رنگ جلووں سے ترے اور بھی روشن ہوئے سائے یہ عشق کے شعلے بھی عجب چیزیں ہیں یعنی جو آگ لگائے وہی خود آگ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4