مایوس خود بہ خود دل امیدوار ہے
مایوس خود بہ خود دل امیدوار ہے اس گل میں بو خزاں کی ہے رنگ بہار ہے طے ہو چکیں شکست تمنا کی منزلیں اب اس کے بعد گریۂ بے اختیار ہے اس بے وفا سے کر کے وفا مر مٹا رضاؔ اک قصۂ طویل کا یہ اختصار ہے
ممتاز شاعرجنہیں لکھنوی شاعری کے شاعرانہ محاورں پر دسترس تھی
Prominent poet who mastered the poetic idiom of Lucknow poetry.
مایوس خود بہ خود دل امیدوار ہے اس گل میں بو خزاں کی ہے رنگ بہار ہے طے ہو چکیں شکست تمنا کی منزلیں اب اس کے بعد گریۂ بے اختیار ہے اس بے وفا سے کر کے وفا مر مٹا رضاؔ اک قصۂ طویل کا یہ اختصار ہے
ہمیں نے ان کی طرف سے منا لیا دل کو وہ کرتے عذر تو یہ اور بھی گراں ہوتا سمجھ تو یہ کہ نہ سمجھے خود اپنا رنگ جنوں مزاج یہ کہ زمانہ مزاج داں ہوتا بھری بہار کے دن ہیں خیال آ ہی گیا اجڑ نہ جاتا تو پھولوں میں آشیاں ہوتا دماغ عرش پہ ہے تیرے در کی ٹھوکر سے نصیب ہوتا جو سجدہ تو میں کہاں ...
یہی اچھا ہے جو اس طرح مٹائے کوئی آپ بھی پھر مجھے ڈھونڈے تو نہ پائے کوئی کوندتی برق نہ دیتی ہو جہاں فرصت دید تاب کیا ہے جو وہاں آنکھ اٹھائے کوئی بندشیں عشق میں دنیا سے نرالی دیکھیں دل تڑپ جائے مگر لب نہ ہلائے کوئی
ان کے ستم بھی کہہ نہیں سکتے کسی سے ہم گھٹ گھٹ کے مر رہے ہیں عجب بے بسی سے ہم یادش بخیر دل کا خیال آ کے رہ گیا اس بے دلی میں جیتے ہیں کس بے حسی سے ہم جو دل میں تھا وہ ملتا ہے ساتھ اپنے خاک میں تم دور اور کہہ نہ سکے کچھ کسی سے ہم
قسمت میں خوشی جتنی تھی ہوئی اور غم بھی ہے جتنا ہونا ہے گھر پھونک تماشا دیکھ چکے اب جنگل جنگل رونا ہے ہستی کے بھیانک نظارے ساتھ اپنے چلے ہیں دنیا سے یہ خواب پریشاں اور ہم کو تا صبح قیامت سونا ہے دم ہے کہ ہے اکھڑا اکھڑا سا اور وہ بھی نہیں آ چکتے ہیں قسمت میں ہو مرنا یا جینا اب ہو ...
حسن کی فطرت میں دل آزاریاں اس پہ ظالم نت نئی تیاریاں متصل طفلی سے آغاز شباب خواب کے آغوش میں بیداریاں سوچ کر ان کی گلی میں جائے کون بے ارادہ ہوتی ہیں تیاریاں درد دل اور جان لیوا پرسشیں ایک بیماری کی سو بیماریاں اور دیوانے کو دیوانہ بناؤ اللہ اللہ اتنی خاطر داریاں بندھ رہا ...
اللہ نظر کوئی ٹھکانہ نہیں آتا آنے کو چلے آتے ہیں جانا نہیں آتا کہہ دوں تو مزے پر یہ فسانہ نہیں آتا ٹھہروں تو پلٹ کر یہ زمانہ نہیں آتا یوں روز ہوا کرتے تھے بے ساختہ چکر اب آج بلایا ہے تو جانا نہیں آتا تدبیر سی تدبیر دعاؤں سی دعائیں سب آتا ہے تقدیر بنانا نہیں آتا
جو چاہتے ہو سو کہتے ہو چپ رہنے کی لذت کیا جانو یہ راز محبت ہے پیارے تم راز محبت کیا جانو الفاظ کہاں سے لاؤں چھالے کی ٹپک کو سمجھاؤں اظہار محبت کرتے ہو احساس محبت کیا جانو کیا حسن کی بھیک بھی ہوتی ہے جب چٹکی چٹکی جڑتی ہے ہم اہل غرض جانیں اس کو تم صاحب دولت کیا جانو ہے فرق بڑا اے ...