وارتیا دوش
نہیں مٹتی کسی کی بھوک روٹی سے نہیں کرتے کسی کے درد کا درماں آنسو کہیں ہوتا اثر دی ہوئی دعاؤں کا نہیں اٹھتا کوئی انقلاب لہو سے نہیں اگتا کوئی سبزہ پسینے سے پھلتا ہی نہیں کوئی بھی کام باندھا ہی نہیں گیا پریم سوت ہماری عمریں گزر چکی ہیں
معروف معاصر شاعر، ادبی جریدے ’استفسار‘ کے مدیر
Well-known poet and editor of literary journal 'Istefsaar'
نہیں مٹتی کسی کی بھوک روٹی سے نہیں کرتے کسی کے درد کا درماں آنسو کہیں ہوتا اثر دی ہوئی دعاؤں کا نہیں اٹھتا کوئی انقلاب لہو سے نہیں اگتا کوئی سبزہ پسینے سے پھلتا ہی نہیں کوئی بھی کام باندھا ہی نہیں گیا پریم سوت ہماری عمریں گزر چکی ہیں
بکھر گیا ہوا کے تھپیڑے سے گھونسلہ ملاؤں گا کیسے نظر لوٹ کر آئی اگر چڑیا
بجا ہے کہ بارشوں سے پہلے بھی اداس تھا جنگل اور اب بھی ہے جب ہو چکی ہے بارش لگتا ہے ٹھہر گیا ہے موسم اندر کا ہو گئی ہے جامد سماعت اور بصارت دیکھتے سنتے ہوئے بھی جو نظر آتا نہیں ہے بدلاؤ
ہر روز بدل جاتا ہے کچھ نہ کچھ کمرہ ہر ہفتہ عشرے میں نئے سلیقے سے سجایا جاتا ہے سامان وقت کے ساتھ بدل جاتی ہیں کچھ چیزیں بھی مگر ایک ساتھ سب کچھ بدلنے کے لیے بدلنا ہوتا ہے گھر
سمٹ آئے ہیں ساتوں سمندر ایک قطرے میں جس میں سمٹ آئے تھے ساتوں آسمان وہ قطرہ اب ٹپکنا چاہتا ہے پلکوں سے مجھے یہ فکر زمیں کے بطن کو اتنی قوت کون بخشے گا
پلٹ کر دیکھ بھر سکتی ہیں بھیڑیں بولنا چاہیں بھی تو بولیں گی کیسے ہو چکی ہیں سلب آوازیں کبھی کی لوٹنا ممکن نہیں ہے صرف چلنا اور چلتے رہنا ہے خوابوں کے غار کی جانب جس کا رستہ سنہرے بھیڑیوں کے دانتوں سے ہو کر گزرتا ہے
لٹکا دیا دن کھونٹی پر ہینگر سے اتاری رات پہننے کے لیے دن اور رات ہو گئے کتنے پرانے اگلے سفر کے لیے مناسب ہوگا کون سا لباس
اک پتی کے ٹوٹنے گرنے کی آواز سے سحر اٹھا ہے سہمتا پیڑ بے تعلق شاخ پر بیٹھی ہے چڑیا ناک کے نیچے پڑا ہے گھونسلہ بکھرا ہوا جس کے گرنے اور بکھرنے کی صدا سے بے خبر ہے پیڑ مدتوں سے وہ ہماری ہی طرح ہیں ساتھ ساتھ
اس کے ہرے رہنے سوکھنے جھڑنے سے فرق کچھ پڑتا نہیں ہے پیڑ کو کیا اسی غم میں گھل جاتا ہے پتہ
جہاں سے ہوا تھا شروع سفر دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا سامنے تھا منتظر صحرا سفر کا اور سائے خار دار دیکھتے رکتے ٹھیک ویسے ہی جو میرے آگے کے پائدانوں پر کھڑے سایوں نے سوچا چاہا اور کیا میں جو ان کا پیش رو ہوں