عورتوں کی اسمبلی
وہ شانوں پہ زرکار آنچل اچھالے
ادھر سے ادھر مست زلفوں کو ڈالے
میاں اور بچے خدا کے حوالے
حسیں ہاتھ میں نرم فائل سنبھالے
کس انداز سے ناز فرما رہی ہے
کہ جیسے چمن میں بہار آ رہی ہے
مباحث میں یوں گرم گفتار ہیں سب
کہ بس لڑنے مرنے کو تیار ہیں سب
فسوں کار ہیں سب طرح دار ہیں سب
برابر برابر کی سرکار ہیں سب
ادھر اصغری بھڑک گئی اکبری سے
ادھر طفل رونے لگے گیلری سے
‘‘اسپیچوں’’ میں گوٹے کناری کی باتیں
بہو کی کفایت شعاری کی باتیں
پڑوسن کی پرہیزگاری کی باتیں
غرض ہر بیاہی کنواری کی باتیں
رواں ہیں ہجوم تجلی کے دھارے
یہ آنچل سمیٹے وہ گیسو سنوارے
دم گفتگو کوئی جیتے نہ ہارے
ستاروں سے ٹکرا رہے ہیں ستارے
بوا کو تو دیکھو نہ گہنا نہ پاتا
بجٹ ہاتھ میں جیسے دھوبن کا کھاتا
بہ انداز غیظ و غضب بولتی ہیں
بہ آواز شور و شغب بولتی ہیں
نہیں بولتی ہیں تو کب بولتی ہیں
یہ جب بولتی ہیں تو سب بولتی ہیں
معاً اپنے خوابوں میں گم ہو گئی ہیں
ابھی جاگتی تھیں ابھی سو گئی ہیں