اور یہ انساں
اور یہ انساں ۔۔۔جو مٹی کا اک ذرہ ہے۔۔۔ جو مٹی سے بھی کم تر ہے
اپنے لیے ڈھونڈے تو اس کے سارے شرف سچی تمکینوں میں ہیں
لیکن کیا یہ تکریمیں ملتی ہیں
زر کی چمک سے
تہذیبوں کی چھب سے
سلطنتوں کی دھج سے
نہیں ۔۔۔نہیں تو۔۔۔
پھر کیوں مٹی کے اس ذرے کو سجدہ کیا اک اک طاقت نے
کیا اس کی رفعت ہی کی یہ سب تسخیریں ہیں
میں بتلا دوں
کیا اس کی قوت اور کیسی اس کی تسخیریں
میں بتلا دوں
قاہر جذبوں کے آگے بے بس ہونے میں مٹی کا یہ ذرہ
اپنے آپ میں
جب مٹی سے بھی کم تر ہو جاتا ہے سننے والا اس کی سنتا ہے
سننے والا جس کی سنے وہ تو اپنے مٹی ہونے میں بھی انمول ہے