اور کیا ہوگا دل مہجور کی آغوش میں

اور کیا ہوگا دل مہجور کی آغوش میں
جل رہا ہے طور برق طور کی آغوش میں


یوں لگا رکھی ہے دل سے زندگی کی آرزو
جیسے طفل جاں بہ لب مزدور کی آغوش میں


نور ہی کی جستجو میں کٹ گئی عمر عزیز
دم بھی پروانے کا نکلا نور کی آغوش میں


تھک گئے تھے جستجو میں حضرت انسان کی
سو گئے ہم دختر انگور کی آغوش میں


جاگنا واعظ کا صبح حشر تک ممکن نہیں
سوئے ہیں حضرت خیال حور کی آغوش میں


میرے ساغر میں ہے شاہدؔ اب وہ جان میکدہ
گم تھی جو خیام نیشپور کی آغوش میں