اور ہوا چپ رہی

شاخ زیتون پر کم سخن فاختاؤں کے اتنے بسیرے اجاڑے گئے
اور ہوا چپ رہی
بے کراں آسمانوں کی پہنائیاں بے نشیمن شکستہ پروں کی تگ و تاز پر بین کرتی رہیں
اور ہوا چپ رہی
زرد پرچم اڑاتا ہوا لشکر بے اماں گل زمینوں کو پامال کرتا رہا
اور ہوا چپ رہی
آرزو مند آنکھیں بشارت طلب دل دعاؤں کو اٹھے ہوئے ہاتھ سب بے ثمر رہ گئے
اور ہوا چپ رہی
اور تب حبس کے قہرماں موسموں کے عذاب ان زمینوں پہ بھیجے گئے
اور منادی کرا دی گئی
جب کبھی رنگ کی خوشبوؤں کی اڑانوں کی آواز کی اور خوابوں کی توہین کی جائے گی
یہ عذاب ان زمینوں پہ آتے رہیں گے