اوج مقام دوست پہ اپنا گزر کہاں
اوج مقام دوست پہ اپنا گزر کہاں
شایان سدرہ طائر بے بال و پر کہاں
تو ہے خیال میں تو ہے آرائش خیال
تو ہی نہ ہو نظر میں تو ذوق نظر کہاں
دیکھو جسے وہ مست مئے کبر و ناز ہے
دنیا بہت خراب ہے جائیں مگر کہاں
ہے ابتدائے شام سے ظلمات کا سفر
ہوتی ہے دیکھیے شب غم کی سحر کہاں
تقدیر میں ہے اس کی فشار لحد وہی
تدبیر سے اڑا بھی تو پہنچا بشر کہاں
اس بے خودی میں کس کو ہے پروا مآل کی
موجود مبتدا ہی نہ ہو تو خبر کہاں
محرومؔ کیا ہی خوب ہے حالیؔ کی وہ غزل
تجھ سے جہاں میں لاکھ سہی تو مگر کہاں