آڈیو لیکس: پاکستان میں کب سے یہ سلسلہ جاری ہے اور ملک کو کیا کیا نقصان ہوا ہے؟
اس وقت میڈیا میں موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کی مختلف اہم شخصیات کے ساتھ بات چیت کی آڈیو لیکس کا غلغلہ ہے۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں سمیت دیگر افراد سامنے آنے والی تین آڈیوز کو پوری فلم کے ٹریلر سے بھی کم سمجھ رہے ہیں۔ ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ کیونکہ مختلف دعووں کے مطابق انٹر نیٹ کے خفیہ حصے ڈارک ویب پر کوئی شخص وزیر اعظم کی آڈیو کالز سمیت دیگر حصاص معلومات کا آٹھ جی بی سے زائد ڈیٹا نیلامی پر لگائے بیٹھا ہے اور بولیاں موصول کر رہا ہے۔ بعض کا دعویٰ ہے کہ یہ ڈیٹا تمام موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف سے متعلق ہے اور بعض کا دعویٰ ہے کچھ نہ کچھ آڈیوز عمران خان صاحب کی بھی موجود ہیں۔ حکومتی ایوان میں اس وقت مچی کھلبلی بتا رہی ہے کہ بات میں بہت حد تک صداقت ہے۔ آج ستائیس ستمبر کو پریس کانفرنس کے دوران شہباز شریف نے اس مسئلے پر کمیٹی بنانے کا اعلان کیا۔ اس سے پہلے ہی خبریں سامنے آئی تھیں کہ شہباز شریف بدھ کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلا چکے ہیں، جو کہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق موخر یا منسوخ کر دیا گیا ہے۔ حکومت واقعی اس مسئلے پر پریشان نظر آ رہی ہے۔ بعض دعووں کے مطابق ہیکر کو حکومت ایک خطیر رقم کی پیشکش بطور تاوان کر چکی ہے، اگر وہ ڈیٹا واپس کر دے تو۔
حکومتی محکموں میں ہیکنگ کے واقعات:
پچھلے ایک ڈیڑھ سال پر ہی نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں۔ کئی اہم حکومتی محکمے سائبر حملے بھگت چکے ہیں۔ ان میں کامرس منسٹری، سکیورٹی اور ایکسچینج کمشن، نادرا، ایف بی آر اور مختلف بینک شامل ہیں۔ ان سب محکموں سے ڈیٹا کی چوری رپورٹ ہو چکی ہے۔ وہ بھی صرف پچھلے ایک ڈیڑھ سال میں۔ ہم تمام واقعات کو مختصراً دیکھیں گے، لیکن سوال یہ ہے کہ ان چوریوں کو روکنے کے لیے کیوں سائبر نظام کو مستحکم نہیں کیا جا سکا؟ کیا حکومت کو ادراک نہیں کہ ڈیٹا کی چوری سے شہریوں کے اقتصادی، سماجی اور نجی معاملات کس حد تک متاثر ہو سکتے ہیں؟
• فیڈرل بورڈ آف ریونیو ڈیٹا بیس کا ہیک ہونا:
ایف بی آر کا ڈیٹا بیس ملک میں موجود سب سے بڑا ڈیٹا بیس ہے جس میں شہریوں کے معاشی معاملات سے متعلق ڈیٹا موجود ہے۔ کس شہری کی کتنی دولت ہے، اس پر اس نے کتنا لگان دیا، کس کو کب کیا فروخت کیا وغیرہ، سب چیزوں کی معلومات اس ڈیٹا بیس میں موجود ہیں۔ پچھلے سال پندرہ اگست کو خبریں سامنے آئیں کہ ایف بی آر کا ڈیٹا بیس ہیک ہو گیا ہے۔ پھر دعوے ہوئے کہ یہ ڈیٹا بلیک ویب پر بک رہا ہے۔ لیکن اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے اس سے انکار کیا۔ انہوں نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ ہیکنگ ایک کریک سافٹ وئیر کے استعمال کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔ لیکن بہر حال وہ یہ مانے کہ ہیکرز ڈیٹا ضرور اڑا کر لے گئے ہیں۔ پندرہ اگست 2021 کو ایف بی آر کے سسٹم ہیک کا شور اس وقت مچا تھا جب ایف بی آر کی ویب سائٹ چوبیس گھنٹوں سے زائد تک ناقابل رسائی ہو گئی تھی۔
• نادرا کے سسٹم کا ہیک ہونا:
چھبیس نومبر 2021 کو مشہہور انگریزی اخبار دی نیوز میں خبر شائع ہوئی کہ ایف آئی اے کے سائبر ونگ نے تصدیق کی ہے کہ نادرا کا بائیومیٹرک سے متعلق ڈیٹا ہیک ہو چکا ہے۔ اس بات کی تصدیق ایف آئی اے کے نمائندہ افسر نے قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی کے سامنے کی۔ اسی دوران ایف آئی اے کے نمائندہ افسر نے یہ بھی بتایا کہ جب کبھی ہم کسی سائبر جرم کے پیچھے مجرموں کو ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو اکثر ہماری کھوج بوڑھے یا خواتین پر منتج ہوتی ہے۔ اب ان کو تو ٹھیک سے موبائل فون چلانا نہیں آتا، سائبر کرائم کیسے کریں گے۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کا ڈیٹا مجرم چوری کر کے جرم کے دوران استعمال کرتے ہیں۔
یقیناً یہ ڈیٹا نادرا جیسی جگہوں سے ہی چوری شدہ ہوتا ہے اور کہاں سے۔
• ایس ای سی پی کے ڈیٹا بیس کا ہیک ہونا:
اس سال اگست میں ایس ای سی پی کے ڈیٹا کی چوری بھی سامنے آ گئی۔ ایس ای سی پی وہ جگہ ہے جہاں تمام کمپنیاں رجسٹر ہوتی ہیں اور سٹاک مارکیٹ پر نظر رکھی جاتی ہے۔ ایسی حساس جگہ کے ڈیٹا کی چوری کے نتائج کس قدر سنگین ہو سکتے ہیں، آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں۔ ڈان اخبار نے اس چوری پر رپورٹ میں بتایا کہ چوری شدہ ڈیٹا میں بہت سی کمپنیوں کے نام، ان کے مالکان کے نام، ان کے شناختی کارڈ نمبر، اور ان کے مستقل رہائشی پتے شامل ہیں۔
• وزارت کامرس کے ڈیٹا کا ہیک ہونا:
اسی ماہ کے آغاز پر کامرس کی وزارت میں ڈیٹا کی چوری بھی سامنے آ گئی۔ مبینہ طور پر اس چوری میں پاسورڈز، ای میل کے ریکارڈ، مختلف فائلز اور دیگر معلومات ہیکرز لے اُڑے۔
یہ ٹھیک ہے کہ کسی سائبر حملے کے نتیجے میں مجرم تک پہنچنا آسان نہیں ہوتا۔ کیونکہ جرم دنیا کے ایک ملک ملک میں ہوتا ہے اور مجرم دوسرے ملک میں۔ بسا اوقات تو چوری میں خود حکومتیں اور ان کی خفیہ ایجنسیاں وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔ لیکن پھر بھی ضروری ہے کہ حکومت سائبر کرائم کو روکنے کے لیے سخت سے سخت اقدام لے۔ اب جو وزیراعظم ہاؤس کی لیکس سامنے آئی ہیں، اس کے اندرونی کیا بیرون ملک بھی سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ آپ خود سوچیں بیرونی ممالک کے وفود اور سفارتکار پاکستان کے وزیر اعظم سے بات کرتے ہوئے کس قدر محتاط ہو جائیں گے کہ جب انہیں یقین نہیں ہوگا کہ ان کی بات باہر نہیں جائے گی۔ یہ بات پاکستان کی عزت اور سالمیت کے لیے کس قدر تباہ کن ہے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔