دمہ اور موسم سرما: احتیاطی تدابیر
دَمہ (ا ستھما) یونانی لفظ ازما"AZMA" سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں "سانس کا پھولنا"۔ چونکہ دمہ میں مبتلا مریض کی سانس پھولتی ہے اور وہ ہانپنے لگتا ہے اس لئے اس بیماری کو استھما کا نام دیا گیا ہے۔ دمہ ایک ایسی کیفیت ہے جس میں مریض پورے طبعی طریقے سے سانس لینے میں دشواری محسوس کرتا ہے اور پیہم کھانسے لگتا ہے جس کی وجہ ہوا کی نالیوں کا سکڑ کر تنگ ہو جانا ہے …سانس کی نالیوں سے ایک خاص قسم کی آواز "ویز"نکلتی ہے اور مریض کو سانس لینے میں تکلیف اور دشواری محسوس ہوتی ہے چھاتی پر دباؤ محسوس ہوتا ہے اور دمہ کا حملہ شروع ہوتے ہی مریض بے قراری کی حالت میں ہانپنے لگتا ہے، اس کے چہرے سے پریشانی کے آثار ٹپکنے لگتے ہیں اور وہ تازہ ہوا (آکسیجن)کی تلاش میں ہاتھ پیر مارتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ چند ثانیوں بعد مریض ایک "خصوصی پوزیشن " اختیار کر لیتا ہے جس سے اسے قدرے راحت ملتی ہے اس دوران دوائیوں کا استعمال کرنے سے وہ تھوڑی دیر بعد پھر سے نارمل دکھائی دیتا ہے۔ دمہ کا حملہ کسی وجہ سے کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔ ہر وقت مناسب علاج ملنے سے مریض کو فوری راحت ملتی ہے لیکن کبھی کبھی مریض پے درپے حملوں کا شکار ہوتا ہے۔ اسے سٹیٹس استھمیٹکس کہتے ہیں۔ یہ ایک میڈیکل ایمرجنسی ہے جس کا علاج ہسپتال میں تحت نظر ماہرین کیا جانا ضروری ہے ورنہ یہ حالت جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔
دمہ ایک عام بیماری ہے جو کسی بھی عمر میں لاحق ہوسکتی ہے۔ کل آبادی میں دس سے بارہ فیصد بچے اور پانچ سے سات فیصد بڑے اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ مختلف تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ یہ بیماری زیادہ تر بچوں اور (سن بلوغت سے قبل)نوجوانوں کو اپنی گرفت میں لیتی ہے۔ بچوں میں یہ بیماری یا تو ایک مزمن بیماری کا روپ دھار لیتی ہے یا سن بلوغت کے بعد خود بخود غائب ہو جاتی ہے۔ ایک اور تحقیق کے مطابق ثابت کیا جا چکا ہے کہ ا گرچہ یہ بیماری عمر کے کسی بھی موڑ پر گھیر لیتی ہے مگر پچاس فیصد افراد عمر کے دسویں سال سے پہلے ہی اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جہاں تک بالغ افراد کا تعلق ہے مرد وزن یکساں طور متاثر ہوتے ہیں مگر بچوں میں لڑکوں ، لڑکیوں کا تناسب ٢:١ہے یعنی لڑکوں میں یہ بیماری زیادہ پائی جاتی ہے۔
مجموعی طور دمہ کی دو قسمیں ہیں :
١۔خارجی، ظاہری یا حساسیتی(الرجی)
٢۔باطنی، داخلی یا غیر حساسیتی (الرجی)
١۔دمہ خارجی، ظاہری یا حساسیتی زیادہ عام ہے جو عام طور پر بچپن میں ہی شروع ہو تا ہے اس قسم کے دمہ میں مبتلا بچے اور ان کے قریبی رشتہ دار کسی خاص قسم کی حساسیت (الرجی) کے شکار ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں کو وقتاً فوقتاً مختلف چیزوں کیساتھ الرجی ہوتی ہے۔ جو خاص محرکات خارجی ان کے اندر حساسیت پیدا کرتے ہیں ان میں زرِ گل (پھولوں کا ریزہ)گھروں کے اندر اُٹھنے والے گرد و غبار میں باریک کیڑے مکوڑے، جانوروں کی گندگی، تکیوں اور کمبلوں میں بھرے ہوئے جانوروں کے پر، مختلف قسم کی غذائیں اور کچھ کیمیائی مادے قابل ذکر ہیں۔ یہ چیزیں یا ان کی بوسانس لیتے وقت پھیپھڑوں میں چلی جاتی ہیں اور حساسیت پیدا ہو جاتی ہے جس سے دمہ کا حملہ شروع ہوتا ہے۔
٢۔ دمہ باطنی، داخلی یا غیر حساسیتی دمہ کی یہ قسم سن بلوغت کے بعد شروع ہوتی ہے اس میں فرد نہ تو خود کسی حساسیت کا شکار ہوتا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی قریبی رشتہ کسی خاص حساسیت کا شکار ہوتا ہے۔ ان افراد میں دمہ کا حملہ کسی وائرسی انفیکشن کے بعد شروع ہوتا ہے۔ ان افراد میں قابل ذکر محرکات خارجی نہیں ہوتے ہیں لیکن دس فیصد مریض دوائیوں کے لئے حساس بن جاتے ہیں جن میں اسپرین قابل ذکر ہے یعنی اگر یہ لوگ اسپرین استعمال کریں تو ان پر دمہ کا حملہ ہوسکتا ہے۔ یہ دمہ کی ایک اور قسم بھی ہے جو کچھ خاص دوائیاں استعمال کرنے سے شروع ہوتا ہے۔
ان دو قسموں کے علاوہ ایک اور قسم کا دمہ ہے جسے مخلوط قسم کہتے ہیں۔ جس میں مریض نہ اولین اور نہ دائمی قسم میں فٹ ہوتا ہے۔
اب سوال یہ ہے (جو عام طور ڈاکٹروں سے پوچھا جاتا ہے)کہ دمہ اور الرجی میں کیا فرق ہے ؟ الرجی یا حساسیت انسانی جسم کے کسی بھی حصہ کا غیر معمولی رد عمل ہے جو کسی بیرونی حالت یا ایجنٹ کی وجہ سے واقع ہوتا ہے جبکہ دمہ نتیجہ ہے الرجی کا جس کا تعلق سانس کی نالیوں سے ہے۔ دمہ جہاں سانس کی نالی اور پھیپھڑوں سے تعلق رکھتا ہے الرجی جسم کے کسی بھی حصہ کا عکس العمل ہوسکتا ہے۔
دمہ (استھما) تشخیص کرنے میں ڈاکٹروں کو کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ مریض کا شرح حال سن کر ظاہری حالت دیکھ کر اور طبی معائنہ کرنے کے بعد ڈاکٹر فوری تشخیص کرتا ہے اور وہ دوائیاں تجویز کرتا ہے۔ دمہ کے مریض کے لئے دوائیاں تجویز کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مریض کی عام زندگی کے معمولات کو برقرار رکھا جائے اور مرض کے بار بار کے حملوں کو کم کیا جائے۔ اس کے لئے مریض کو مرض کے متعلق تمام معلومات بہم پہنچانا اشد ضروری ہے۔ دمہ میں حملے کے وجوہات یا مرض میں شدت پیدا کرنے کے اسباب مریض کے لئے جاننا بے حد ضروری ہے تاکہ وہ آئندہ احتیاطی تدابیر پر عمل کر کے اپنے آپ کو پے درپے حملوں سے بچا سکے جو دوائیاں مریض کے لئے تجویز کی جائیں ان پر سختی سے عمل کرنا ضروری ہے اور کبھی بھی کسی بھی صورت میں دوائیوں کی تعداد نہ از خود کم کرے نہ زیادہ اور تب تک دوائیوں کا استعمال جاری کیا جائے جب تک ڈاکٹر ہدایت دے کوئی بھی دوائی ڈاکٹری مشورہ کے بغیر استعمال نہ کرے۔
بچوں کے اسپتال میں کام کرنے والے ماہرین امراضِ اطفال کی متفقہ رائے ہے کہ جو بچے کسی خاص قسم کی الرجی کے شکار ہوں اور دمہ کے مرض میں مبتلا ہوں ان کے لئے سردیوں کے موسم میں احتیاط برتنا لازمی ہے۔ موسم سرما کے آغاز میں درجہ حرارت میں تغیر ہونے کی وجہ سے بچوں میں دمہ کے حملوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان بچوں کو سردی کے موسم میں (خاص کر صبح و شام کے وقت)گھر سے باہر جانے کی اجازت نہ دی جانی چاہئے اور نہ سڑکوں اور باغوں میں کرکٹ یا کوئی اور کھیل کھیلنے کے لئے اجازت دی جائے۔ اگر گھر سے باہر جانا ناگزیر ہے تو چہرہ (ناک اور منھ) مفلر سے ڈھلک لینے کی ہدایت دی جائے۔ ان بچوں کو فضائی آلودگی، دھوئیں ، بو، آلودہ غذائیں اور کیڑے مکوڑوں سے دور رکھنا چاہئے، ایسے بچوں کو کانگڑی کا استعمال نہ کرنے دیا جائے اور جن کمروں میں لکڑی، کوئلہ سے چلنے والی بخاری ہو، وہاں بیٹھنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ایسے بچوں کے لئے حمام کی گرمی یا ہیٹر کی گرمی مناسب ہے۔ علاوہ ازیں اس مرض میں مبتلا بچوں کو سردیوں میں مناسب، متوازن اور مقوی غذا کھلائی جائے اور پانی و دیگر مائع جات کا وافر مقدار استعمال کروایا جائے تاکہ وہ ناآبیدگی کے شکار نہ ہوں اور دمے کے حملوں سے بچ جائیں۔ ہمارے ہاں عموماً ان بچوں کو دودھ، دہی، مکھن، سبزیاں اور میوے نہیں دیے جاتے ہیں جو کہ ایک غلط روش ہے۔ ان بچوں کو انواع واقسام کی غدائیں کھلانا ضروری ہے تاکہ ان کے جسم کے اندر نظام قوت مدافعت بہتر طور کام کرسکے اور وہ گونا گوں انفکشنز کے شکار نہ ہوں۔ ڈاکٹری لحاظ سے ان بچوں کے لئے کوئی غذائی پابندی نہیں ہے ہاں اگر کسی خاص غذا سے الرجی ہو تو اسے نہ دیا جائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ موسم سرما میں ان بچوں کو اکثر سردی، کھانسی، زکام کی شکایت ہوتی ہے اس کے لئے ڈاکٹروں سے مشورہ کرنا ضروری ہے، ڈاکٹری مشورہ کے بغیر کسی بھی صور ت میں ان بچوں کو کوئی دوائی نہ دی جائے۔
جوانی کی دہلیز پار کرنے کے بعد جن افراد کو دمہ کی شکایت ہوتی ہے ان کے بارے میں ماہرین معالجین کا ماننا ہے کہ ان مریضوں کے لئے موسم سرما میں کچھ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ضروری ہے تاکہ ان کی بیماری شدت اختیار نہ کرے۔ ان کے کہنے کے مطابق دمہ میں مبتلا اشخاص سردیوں کے موسم میں صبح و شام گھروں سے باہر نہ جائیں۔ کانگڑی کا استعمال نہ کریں اور جن کمروں میں بخاریوں کا دھواں ہو، وہاں نہ بیٹھیں … تمباکو اورسگریٹ نوشی ہرگز نہ کریں حتیٰ کہ جن کمروں میں دوسرے افراد سگریٹ یا تمباکو نوشی کرتے ہوں ، وہاں بھی نہ بیٹھیں۔ ابالا ہوا پانی (نیم گرم پانی) اور دیگر مائع جات کا وافر مقدار میں استعمال کریں ، اکثر دیکھا گیا ہے کہ دمہ میں مبتلا مریض پانی بہت کم پیتے ہیں کیونکہ ا ن کو (خاص کر سردیوں میں ) پیاس نہیں لگتی ہے۔ اکثر مریض یہ سوچتے ہیں کہ ان کو صرف اس وقت پانی پینا چاہئے جب ان کو پیاس لگے مگر تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ پیاس لگنا اس بات کی یقینی علامت نہیں ہے جس میں نابیدگی، پیدا ہو رہی ہے اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ نابیدگی کے باوجود بھی پیاس محسوس نہیں ہوتی اور مریض یہ سمجھتے ہیں کہ غذا کے ساتھ جو مشروبات جسم میں پہنچتے ہیں وہ اسے آبیدہ رکھنے کے لئے کافی ہیں۔ ان مریضوں اور بوڑھے لوگوں میں نابیدگی کا امکان زیادہ ہوتا ہے لہٰذا انہیں اس سلسلے میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ پیاس لگے یا نہ لگے، وقفے وقفے سے پانی پیتے رہنا ان مریضوں کے لئے بے حد فائدہ مند ہے۔ اس کے علاوہ ان مریضوں کے لئے طبی نقطہ نظر سے یہ ضروری ہے کہ رات کا کھانا کھاتے ہی فوری لیٹ نہ جائیں بلکہ کھانا کھانے کے بعد کم از کم دو گھنٹے بیٹھے رہیں۔ رہاسوال غذائی پرہیز کا۔ دمہ میں مبتلا مریضوں کے لئے کوئی خاص قسم کی غدا کھانا ضروری نہیں ہے۔ وہ متوازن، مقوی غذا کھالیں تاکہ وہ کمزور ہو کر مختلف عفونتوں کا شکار نہ ہوں۔
ماہرین کے مطابق موسم سرما کے آغاز و اواخر میں دمہ میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوتا ہے۔ اسپتال میں بھرتی ہونے والے مریضوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوتا ہے جن میں بیشتر دیہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ موسم سرما میں یخ بستہ ہوا میں ان افراد کے پھیپھڑوں میں چلے جانے سے سانس کی نالی سکڑ کر تنگ ہو جاتی ہیں اور نالیوں کے اندرونی حصوں پر بلغم کی تہیں جم جاتی ہیں اور اس طرح ان کو سانس لینے میں دشواری محسوس ہوتی ہے اور ان پر دمہ کا حملہ شروع ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے دیہی علاقوں میں کانگڑیوں اور چولہے کے دھوئیں سے کمرے بھر جاتے ہیں جو دمہ کے مریض کے لئے انتہائی مضر ہے۔ اس کے علاوہ دیہی علاقوں میں گھر کے سبھی افراد ایک ہی کمرے میں بیٹھ کر وقت گذارتے ہیں اور اگر کسی ایک کو کوئی انفکشن ہو تو فوری طور دوسروں کے جسموں میں سرایت کر جاتا ہے اور سردیوں میں ان Viral infections سے دمہ کے مرض میں شدت پیدا ہوتی ہے اور دمہ کے حملے شروع ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر ملک کے تجربہ کے مطابق دمہ میں مبتلا افراد سردیوں کے موسم میں مقوی غذا نہیں کھاتے ہیں جس سے ان کے جسم میں کمزوری پیدا ہوتی ہے اور مریض مختلف انفکشنز کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ان کی بھی رائے ہے کہ دمہ میں مبتلا افراد کو ہر قسم کے میوے اور سبزیاں اپنی غذا میں شامل کرنا ضروری ہے، اسی طرح دودھ، دہی، مکھن گوشت، پنیر کا استعمال بھی ضروری ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق دمہ کی بیماری کی سب سے اہم وجہ سرد ہوا اور دھواں ہے۔ اس کے علاوہ دھول اور مٹی بھی دمے کی وجہ بن سکتی ہے۔ اگر کوئی حجام ہے یا نرسنگ کے شعبے سے وابستہ ہے یا پھر کسی شخص کے کام میں جانوروں وغیرہ کی دیکھ بھال شامل ہے تو کام کے دوران مختلف قسم کے کیمیائی مادوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہ کیمیائی مادے بھی دمے کی بیماری کا سبب بن سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مہندی وغیرہ، گندم کا آٹا، جانوروں کی گندگی، یہاں تک کہ سرجری میں استعمال ہونے والے دستانوں میں پایا جانے والا عنصرLatexاور کچھ ادویات جن میں پنسلین وغیرہ شامل ہیں یہ سب دمے کی بیماری کا سبب بن سکتے ہیں ایسے افراد اگر دمہ میں مبتلا ہوں تو اس کو پیشہ ورانہ دمہ یا بیماری حرفای کہتے ہیں۔
آج کل دمہ میں مبتلا افراد Inhalerکا استعمال کرتے ہیں۔ ڈاکٹری تحقیق کے مطابق Inhalers کا استعمال دمہ میں مبتلا افراد کے لئے بے حد مفید ہے۔ ان کے استعمال سے مریض اس کا عادی نہیں ہوتا، اس کے مناسب اور موزوں استعمال سے پھیپھڑے متاثر نہیں ہوتے جو دوائیاں سانس کے ذریعے پھیپھڑوں تک پہنچتی ہیں ' وہ مقدار میں بہت کم ہوتی ہیں اور پھر بہت زیادہ پر اثر ہوتی ہیں ان کا ذیلی رد عمل بھی بہت کم ہوتا ہے۔
Inhalersآسانی سے استعمال کئے جا سکتے ہیں اور کم خرچ ہوتے ہیں اور مریض کو فوری آرام ملتا ہے۔ سردیوں کے موسم میں یہ دمہ میں مبتلا افراد بغیر کسی ہچکچاہٹ کے Inhalers کا استعمال کرسکتے ہیں البتہ ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔
موسم سرما میں حسب ذیل صورتوں میں ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔
- راہ چلتے اچانک کھانسی شروع ہو جائے، سینے پر دباؤ محسوس ہو اور سانس لینے میں دقت ہو۔
- جب باہر سے واپس آ کر گھر میں سانس پوری طرح اور آسانی سے نہیں لی جا سکتی ہو اور سانس لیتے ہوئے منھ سے آواز "ویز"نکلتی ہو۔
- جب رات کو سانس کی تکلیف یا کھانسی کی وجہ سے نیند میں خلل پڑے اور کھانسی کی وجہ سے بسترے سے اٹھنا پڑے۔
- جب تھوڑی دور چلنے کے بعد سانس پھولنے سے پریشانی محسوس ہو۔
- جب کسی سے بات کرتے وقت دوران گفتگو سینے کے اندر دباؤ سا محسوس ہو
- جب دوائیوں کا اثر کم ہوInhalers بھی اثر نہ کریں اور دوائیاں زیادہ مقدار میں لینا ضروری ہو۔
- جب موسم سرما کے آغاز یا اواخر میں مرض شدت اختیار کرے۔
- جب سردی، بخار، زکام، کھانسی کی شکایت شروع ہو۔
- جب سانس لینے کی انتہائی رفتار میں گراوٹ یعنی کمی واقع ہو۔
- جب کسی خاص قسم کا ذہنی دباؤ، کھچاؤ، یا تناؤ محسوس ہو۔
خلاصہ یہ کہ موسم سرما میں دمہ کے مریض اپنے آپ کو یخ بستہ ہواؤں سے بچا کر رکھیں۔ اپنے آپ کو دھول، گرد و غبار اور دھوئیں سے دور رکھیں۔ متوازن اور مقوی غذا کھانے کی عادت ڈالیں۔ میوے اور سزیاں اور پانی وافر مقدار میں استعمال کریں۔ گھر میں کسی بھی فرد کو کوئی انفکشن ہو اس کا بروقت اور مناسب علاج کروائیں۔ بچوں کو باہر سڑک پر، میدانوں میں کھیلنے کی اجازت نہ دیں اور اگر آپ دمہ کے مریض ہیں اور کسی وجہ سے پے درپے حملوں کے شکار ہونے لگیں تو فوری نزدیکی ہسپتال جائیں یا کسی ماہر ڈاکٹر کے پاس جا کر علاج کروائیں۔