اسیران قفس ایسا تو ہو طرز فغاں اپنا

اسیران قفس ایسا تو ہو طرز فغاں اپنا
کہ ہو صیاد خود بھی رفتہ رفتہ ہمزباں اپنا


کئے جا کام ہاں اے گردش دور زماں اپنا
ہمیں بھی دیکھنا ہے کیسے مٹتا ہے نشاں اپنا


عدو ہیں بجلیاں اپنی نہ دشمن آسماں اپنا
ہمیں خود اپنے ہاتھوں پھونکتے ہیں آشیاں اپنا


نہ کھو دے سست گامی ہم کو بازی گاہ ہستی میں
نہ گرد کارواں رہ جائے بن کر کارواں اپنا


چمن کے پتے پتے پر ہیں یا رب بجلیاں قابض
کہاں لے جائیں مرغان چمن اب آشیاں اپنا


عروس منزل مقصود مل ہی جائے گی اک دن
یوں ہی چندے رہا گرجا وہ پیما کارواں اپنا


جلا دیں ہم قفس کی تتلیاں شعلہ نوائی سے
ہر اک مرغ چمن آسیؔ اگر ہو ہمزباں اپنا