اسیر حلقۂ گیسوئے خوباں ہو نہیں سکتا

اسیر حلقۂ گیسوئے خوباں ہو نہیں سکتا
وہ دل تو جس کو تسکیں دے پریشاں ہو نہیں سکتا


تری قدرت سے ہوتا ہے تری حکمت سے ہوتا ہے
کوئی پتھر کہیں لعل بدخشاں ہو نہیں سکتا


محبت ہو کہ نفرت ہو یہ دل کے کھیل ہیں سارے
نہ چاہے دل تو کوئی دشمن جاں ہو نہیں سکتا


چھپا لیتے ہیں با دل مہر و مہ کو اپنے دامن میں
چراغ داغ الفت زیر داماں ہو نہیں سکتا


مصیبت ہی سے قدر عافیت ہوتی ہے دنیا میں
نہ پیش آیا ہو جس کو غم وہ شاداں ہو نہیں سکتا


وطن کوئی ہو عزت جوہر قابل سے بڑھتی ہے
گل صحرا کا ہمسر خار بستاں ہو نہیں سکتا


دل انساں ہے محتاج ضیائے آفتاب عشق
بغیر اس کے کسی صورت درخشاں ہو نہیں سکتا


اسی سے اختیار و جبر کا مفہوم کھلتا ہے
جو ہونا چاہتا ہے کوئی انساں ہو نہیں سکتا


مٹایا تو نے اے محرومؔ ہر اک نقش باطل کو
جدا دل سے ترے کیوں داغ حرماں ہو نہیں سکتا