تائیوان پر چین امریکہ کشیدگی، 2022 میں ایشیا کے لیے سب سے بڑا سیاسی خطرہ
اس وقت دنیا میں موجود بڑی سیاسی کشیدگیوں میں امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی بلا مبالغہ سب سے زیادہ قابل ذکر قرار دی جاسکتی ہے۔ مغرب و مشرق کے سیاسی تجزیہ نگاراس کشیدگی کے 2022 میں جاری رہنے بلکہ شدید ترین ہونے کے خدشات بیان کررہے ہیں اور کم از کم براعظم ایشیا کی حد تک اسے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جارہا ہے۔
ان دو بڑے ممالک کے درمیان کشیدگی کی یوں تو کئی وجوہات ہیں لیکن سال 2022 میں، تجزیہ نگاروں کے نزدیک جو تنازع سب سے زیادہ خطرناک صورت اختیار کرتا نظر آرہا ہے وہ ہے تائیوان کا تنازع۔ اس سال ایک طرفبیجنگ تائیوان کے بارے میں واشنگٹن کے کسی بھی اقدام کو منفی یا اس کے مفادات کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھتا نظر آتاہے جبکہ دوسری طرف امریکہ کی پوری کوشش ہے کہ وہ تائیوان کو اپنے اس حد تک قریب کرنے میں کامیاب ہوجائے کہ وہ اسے چین کے خلاف تجارتی یا ممکنہ طور پر سٹریٹجک مقاصد کے لیے بھی استعمال کرسکے۔
امریکہ اور چین دونوں اطراف سے اگرچہ دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کم کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً مختلف اقدامات ہوتے بھی نظر آتے ہیں جیسے کہ شنگھائی میں جولائی، 2019 میں امریکہ کے ایک بڑے تجارتی وفد نے چینی قیادت سے ملاقاتیں کیں اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور تعاون کی ممکنہ صورتوں پر بات کی لیکن دوسری طرف امریکہ کی طرف سے ایسے اقدامات بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں جن کی بدولت تعلقات استوار ہونے کی بجائے خراب سے خراب تر ہوتے نظر آرہے ہیں۔گزشتہ سال کے آخر میں، صدر جو بائیڈن نے ایک دفاعی بل پر دستخط کیے جو مالی سال 2022 کے لیے نیشنل ڈیفنس آتھرائزیشن ایکٹ (این ڈی اے اے) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس میں کئی دفعات ہیں جو بیجنگ کو پسند نہیں ہیں، بشمول تائیوان کے حوالے سے۔ چین تائیوان کو اپنا جزو لاینفک سمجھتا ہے اور اس کے دفاع کو برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔
جہاں ایک طرف چین اور امریکہ کے درمیان یہ تنازع مزید شدت اختیار کرنے کے خدشات موجودہیں وہیں دنیا کے سب بڑے ممالک بالخصوص ایشیائی ممالک کے سیاسی قائدین اور ذمہ داران کے لیے بھی امریکہ و چین کی یہ کشیدگی ایک بڑے امتحان سے کم نہیں ہوگی۔ انہیں اس کشمکش میں اپنی پوزیشن واضح کرنی ہے، یعنی وہ کس کے ساتھ ہیں۔ اور ان دونوں بڑی طاقتوں میں سے کسی ایک کی حمایت کرنا یا کسی دوسرے کی مخالفت کرتے ہوئے دشمنی مول لینا بہرطور آسان نہیں ہے۔
بہت سے معروف دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین امریکہ اور تائیوان کے گہرے تعلقات سے 'واقعی مایوس' ہے۔ماہرین کے نزدیک یہ دنیا میں ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہوگا۔ اس سرد جنگ کا اظہار کئی انداز سے 2022 یعنی مستقل قریب میں ہی ہونے جارہا ہےاورتجارت سے لے کر کھیلوں تک اس سرد جنگ کی دلچسپ مثالیں سامنے آنے والی ہیں ۔ مثال کے طور پر فروری میں بیجنگ میں ہونے والے سرمائی اولمپکس عالمی سطح پر اس کا اندازہ لگانے میں اہم ہوں گے۔گزشتہ سال دسمبر میں، امریکہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بیجنگ سرمائی اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ امریکی ایتھلیٹس اب بھی حصہ لیں گے، تاہم بائیڈن انتظامیہ گیمز میں کوئی سرکاری نمائندگی نہیں بھیجے گی۔چین کی وزارت خارجہ نےامریکہ کے اس عجیب اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے "اولمپکس کے جذبے سے دھوکہ " قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ بیجنگ ضروری اور پرعزم جوابی اقدامات اٹھائے گا۔