اشک ڈھلتے نہیں دیکھے جاتے
اشک ڈھلتے نہیں دیکھے جاتے
دل پگھلتے نہیں دیکھے جاتے
پھول دشمن کے ہوں یا اپنے ہوں
پھول جلتے نہیں دیکھے جاتے
تتلیاں ہاتھ بھی لگ جائیں تو
پر مسلتے نہیں دیکھے جاتے
جبر کی دھوپ سے تپتی سڑکیں
لوگ چلتے نہیں دیکھے جاتے
خواب دشمن ہیں زمانے والے
خواب پلتے نہیں دیکھے جاتے
دیکھ سکتے ہیں بدلتا سب کچھ
دل بدلتے نہیں دیکھے جاتے
کربلا میں رخ اصغر کی طرف
تیر چلتے نہیں دیکھے جاتے