اشک بہایا میں نے

گوشۂ دل میں تیرا درد چھپایا میں نے
چشم تر کو بھی نہ یہ راز بتایا میں نے
کون وہ شب ہے جو بے اشک بہائے گزری
کون وہ غم ہے جو دل پر نہ اٹھایا میں نے
کی زمانے سے کبھی کوئی شکایت نہ گلہ
اپنے رستے ہوئے زخموں کو چھپایا میں نے
اب تو دم ضبط کی شدت سے گھٹا جاتا ہے
اس قدر درد کو سینے میں دبایا میں نے
حیف بر حال دل زار کہ آئینہ ہوا
لاکھ پردے میں ہر اک راز چھپایا میں نے
زندگی گزری ہے بے کیف سی یا رب پھر بھی
گرچہ ہنس ہنس کے ہر اک غم کو مٹایا میں نے
کس نے یہ کشمکش شام الم دیکھی ہے
جب کوئی درد اٹھا دل میں دبایا میں نے
کب تک اس طور سے ناشادؔ گزاروں گی حیات
جب خوشی کوئی ملی اشک بہایا میں نے