اصحاب کہف کی تفصیلات: تئیسویں قسط

سائرس کابالا تفاق  پانچ سو انتیس  قبل از مسیح میں انتقال ہوا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا کم بی سیز (کمبوچیہ یا کیقباد) تخت نشین ہوا۔ اس نے پانچ سو پچیس  قبل مسیح میں مصر فتح کیا۔ لیکن ابھی مصر میں ہی تھا کہ یہ  معلوم ہوا کہ   ایران میں بغاوت ہو گئی ہے۔ اور ایک شخص ، گوماتہ  نامی  نے اپنے آپ کو سائرس کا دوسرا لڑکا سمرڈیز (فارسی: برویہ) مشہور کر دیا ہے۔ جو بہت پہلے مر چکا تھا یامار ڈالا گیا تھا۔

یہ خبر سن کر وہ مصر سے لوٹا۔ لیکن ابھی شام میں تھا کہ  پانچ سو بائیس  قبل  از مسیح میں اچانک انتقال کر گیا۔ اب چوں کہ سائرس کی براہ راست نسل سے کوئی شہزادہ موجود نہ تھا۔ اس لئے اس کا عم زاد بھائی دارا، ا بن گشتاسپ تخت نشین ہو گیا۔ دارا نے بغاوت فرو کی۔ گوماتہ کو قتل کیا  اور نئی مملکت کواس کے عروج و کمال تک پہنچادیا۔ دارا کی تخت نشینی بالا تفاق  پانچ سو اکیس  قبل مسیح میں ہوئی تھی ۔ پس اس کا عہد سائرس کے انتقال سے آٹھ برس بعد شروع ہو گیا تھا۔ یونانی مورخوں کی شہادت موجود ہے کہ یہ بغاوت میڈیا کے قدیم مذہب کے پیروؤں کی بغاوت تھی اور خود دارا ،اپنے کتبۂ بے ستون میں گوماتہ  کو "مو گوش" لکھتا ہے یعنی مجوس۔ اور مجوسی مذہب سے مقصود قدیم مذہب ہے۔ موگوش کا لفظ ایک جگہ اوستا میں بھی آیا ہے اور اب یہ بات بالاتفاق  قطعی طور پر تسلیم کر  لی گئی ہے  کہ موگوش سے مقصود میڈیا کے اس مذہب کے پیرو ہیں جو زردشت کے ظہور سے پہلے وہاں رائج تھا۔ چوں کہ میڈیا  کے باشندے بابل اور شام میں موگوش کے نام سے مشہور ہو چکے تھے  اس لیے عربوں میں بھی یہی نام مشہور ہو گیا اور یوں موگوش نے مجوس کی شکل اختیار کر لی۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ تمام ایرانیوں کو مجوسی ہی کہا جانے لگا۔ زردشتی اور غیر زردشتی کا امتیاز بالکل ختم ہی ہو کر  رہ گیا ۔ حال آں کہ اصلاً مجوسی ، زردشتی مذہب کے ماننے والوں کے دشمن تھے۔

تاریخ میں اس کا بھی سراغ ملتا ہے کہ پرانے مذہب کے پیروؤں کی سرکشی دارا کے ہاتھوں اس   گوماتہ کی سرکوبی کے بعد بھی جاری رہی۔ چنانچہ دوسری بغاوت "پر اؤرتیش"  نامی مجوسی نے کی تھی، جسے دارا نے ہمدان میں قتل کیا۔ اور تیسری "چترت خُمہ " نامی نے جوار بیل میں قتل ہوا۔

دوسرا واقعہ دارا کے کتبوں سے روشنی میں آیا ہے۔ یہ دنیا کی خوش قسمتی ہے  کہ دارا نے بعض بعض کتبے پہاڑوں کی محکم چٹانوں پر نقش  کرائے جنہیں سکندر کا حملہ بھی برباد نہ کر  سکا ۔ان میں سب سے اہم کتبہ  کوہ بے  ستون کا ہے۔ جس میں دارا نے گوماتہ مجوسی کی بغاوت اور اپنی تخت نشینی کی سرگذشت قلم بند کی ہے۔ جب کہ  دوسرا  کتبہ استخر کا ہے۔ جس میں دارا نے  اپنے تمام ماتحت ممالک کے نام گنوائے ہیں۔ ان دونوں میں وہ بار بار "اہور موزدہ "کا نام لیتا ہے۔اور اپنی تمام کامرانیوں کو اس کے فضل وکرم سے منسوب کر تا ہے۔اور یہ ظاہر ہے کہ اہور موزدہ  کا شکر ادا کرتا ہے۔ اور ہر خوبی ، کامیابی اور سر فرازی کا انتساب اسی کے نام کرتا ہے۔اور یہ بات واضح رہے  کہ "اہور موزدہ" ، زردشت کی تعلیمات کے مطابق ہمارے خدا ہی کا نام ہے۔

ان دوواقعوں پر ایک تیسرے واقعہ کا بھی اضافہ کر  دینا چاہیے۔ یعنی تاریخ میں کوئی اشارہ اس بات  کا نہیں ملتا کہ کم بی سیز نے کوئی نیا دین قبول کیا تھا۔ یا ، دار اکواس طرح کا کوئی معاملہ پیش آیا تھا۔ ہیر وڈوٹس نے دارا کی وفات کے پچاس ساٹھ برس بعد اپنی تاریخ لکھی ہے۔( دارا کی وفات بالا تفاق ۴۸۲ قبل مسیح میں ہوئی۔ اور ہیروڈوٹس ۴۸۴  قبل از مسیح میں پیدا ہوا تھا۔ یعنی دارا کی وفات سے صرف دو سال بعد ۔) اس لئے دارا کے عہد کے واقعات ہیرو ڈوٹس کے لیے بالکل قریبی زمانے کے واقعات تھے۔ اور لیڈیا میں فارسی حکومت قائم ہو جانے کی وجہ سے یونانیوں اور فارسیوں کے تعلقات بھی روز بروز بڑھ رہے تھے۔ تاہم وہ کسی ایسے واقعہ کا ذکر نہیں کر تا ۔

پس سائرس کی وفات اور دارا کی تخت نشینی کے درمیان آٹھ برس کی جو مدت گزری ہے۔ ہم وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس عرصے میں کسی نئی مذہبی دعوت کے ظہور و قبول کا کوئی واقعہ نہیں گزرا۔ اب غور فرمائیے۔ ان واقعات کالازمی نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟ اگر سائرس کے بعد کم بی سیز اور دارا نے کوئی نئی دعوت قبول نہیں کی تھی اور دارا دینِ  زردشتی پر عامل تھا۔ تو کیا اس سے ثابت نہیں ہو رہا کہ دارا اور کم بی  سیز سے پہلے ہی  زردشتی دین ، اس خاندان میں آ چکا  تھا  ؟ اگر سائرس کی وفات کے چند سال بعد قدیم مذہب کے پیرو اس لئے بغاوت کرتے ہیں کہ کیوں ایک نیا مذہب قبول کر لیا گیا تو کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے   کہ سائرس نیا مذہب قبول کر چکا تھا۔ اور تبدیلی مذہب کا معاملہ نیا نیا پیش آیا تھا؟ پھر اگر زردشت سائرس کا معاصر تھا تو کیا یہ اس بات کامزید ثبوت نہیں ہے کہ سب پہلے سائرس ہی نے یہ دعوت قبول کی تھی اور وہ فارس اور میڈیا کا نیا شہنشاہ بھی تھا  اور نئی دعوت کا پہلا حکمران داعی بھی؟

متعلقہ عنوانات