اصحاب کہف کی تفصیلات: چوبیسویں قسط

زردشت اورسائرس

اتنا ہی نہیں ، بلکہ ہم غور کرتے ہیں ،تواس زنجیر کی کڑیاں اور آگے تک بڑھتی جاتی ہیں۔ البتہ ہم اسے ایک قیاس سے زیادہ کہنے کی جرات نہیں کریں گے۔ اگر سائرس زردشت کا معاصر تھا اور سائرس کا ابتدائی زمانہ خاندان سے الگ اور گم نامی میں بسر ہوا ،  تو کیا اس زمانہ میں دونوں شخصیتیں ایک دوسرے کے قریب نہیں پہنچ جاتیں ؟ اور کیا ایسا نہیں سمجھا جا  سکتا کہ اسی زمانہ میں سائرس، زردشت کی تعلیم و صحبت سے بہرہ مند ہوا؟ سائرس کی ابتدائی زندگی کی سرگزشت تاریخ کی ایک گم شدہ داستان ہے۔ پھر کیا اس داستان کا سراغ ہمیں ان دونوں شخصیتوں کی معاصرت کے واقعہ میں نہیں مل جاتا؟

مورخ زینو فن نے سائرس کی ابتدائی زندگی کا افسانہ ہمیں سنایا ہے۔ اس افسانہ میں ایک پراسرار شخص کی پرچھائیاں واضح اور  صاف نظر آرہی  ہیں، جودشت وجبل کے اس پروردۂ قدرت کو آنے والے کارناموں کے لیے تیار کر رہا تھا۔ کیا اس پر چھائیں میں ہم خود زردشت کی مقدس شخصیت کی نمود نہیں دیکھ رہے؟ اگر زردشت کا ظہور شمال مغربی ایران میں ہوا تھا اور اگر سائرس کی ابتدائی گمنامی کازمانہ بھی شمالی کوہستان میں بسر ہوا، تو کیوں یہ دونوں کڑیاں باہم مل کر ایک گم شده داستان کا سراغ نہ بن جائیں؟

سائرس کی شخصیت وقت کے تمام ذہنی اور اخلاقی رجحانات کے بر  خلاف ایک انقلاب انگیز شخصیت تھی۔ ایسی شخصیت کسی انقلاب انگیز داعی کی دعوت ہی سے پیدا ہو سکتی ہے۔ اور صاف نظر آرہا ہے۔ کہ وہ داعی شخصیت زردشت ہی کی تھی۔

بہر حال، سائرس نے اپنی ابتدائی گمنامی کے عہد میں نئی دعوت قبول کی ہو، یا   تخت نشینی کے بعد ،لیکن یہ قطعی ہے کہ وہ دیِن زردشتی پر عامل تھا۔

دین زردشتی کی حقیقی تعلیم

لیکن اگر ذوالقرنین دین زردشتی پر عامل تھا۔ اور قرآن ذوالقرنین کے ایمان باللہ ااور ایمان بالآخرت کا اثبات کر تا ہے،  اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اسے  اللہ کی جانب سے  الہام یافتہ بھی قرار دیتا ہے۔(سورۃ کہف : آیۃ 86)

 تو کیا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ زردشت کی تعلیم دین حق کی تعلیم تھی؟ یقیناً لازم آتا ہے۔ لیکن کوئی وجہ نہیں کہ اس لزوم سے بچنے کی ہم کوشش کریں کیوں کہ یہ حقیقت اب اور پوری طرح روشنی میں آچکی ہےکہ زردشت کی تعلیم سر  تا سر خدا پرستی اور نیک عملی کی تعلیم تھی۔ اور آتش پرستی اور ثنویت(یعنی دو خداؤں) کا اعتقاد اس کا پیدا کیا ہوا اعتقاد نہیں ہے۔ بلکہ قدیم میڈیا کی  مجوسیت کا رد عمل ہے۔

 جس طرح روم کی مسیحیت، قدیم رومی بت پرستی کے رد عمل سے محفوظ نہ رہ سکی۔ اسی طرح زردشت کی خالص خدا پرستانہ تعلیم بھی قدیم مجوسیت کے ردعمل سے بچ نہ سکی۔ خصوصاً ساسانی عہد میں جب وہ از سر نو مدون ہوئی تو اصل تعلیم سے بالکل ایک مختلف چیز بن چکی تھی۔

 زردشت کے ظہور سے پہلے فارس اور میڈیا کے باشندوں کے عقائد کی بھی نوعیت وہی تھی جو انڈو یور پین  آریاؤں کی تمام دوسری شاخوں کی رہ چکی ہے۔ ہندوستان کے آریاؤں کی طرح ایران کے آریاؤں میں بھی پہلے مظاہر قدرت کی پرستش شروع ہوئی۔  پھر سورج کی عظمت کا تصور پیدا ہوا ۔ پھر زمین میں آگ نے سورج کی قائم مقامی پیدا کر لی، کیوں کہ تمام مادی عناصر میں روشنی اور حرارت کا سر چشمہ وہی تھی۔ یونانیوں میں ایسے دیوتاؤں کا تصور پیدا ہوا جن سے اچھائی اور برائی دونوں ظہور میں آتی تھیں۔ لیکن ایرانیوں کے تصور نے دیوتاؤں کو دو متقابل قوتوں میں تقسیم کر دیا۔

ایک قوت پاک ، جب کہ  دوسری قوت برائی کے عفریتوں کی تھی جو نوع انسانی کے جانی دشمن تھے۔ روحانی ہستیوں کی نمود روشنی میں ہوئی اور شیطانوں کی تاریکی میں ۔ نور و ظلمت کی یہی کشمکش ہے جس سے تمام اچھے برے حوادث ظہور میں آتے ہیں۔ چونکہ روشنی پاک روحانیتوں کی نمود ہے۔ اس لئے ہر طرح کی عبادتیں اور قربانیاں اس کے لیے ہونی چاہئیں۔ اس روشنی کا مظہر  آسمان میں سورج اور زمین میں آگ تھی۔ اچھائی اور  برائی کا جس قدر تصور تھا، وہ یونانیوں کی طرح صرف مادی زندگی کی راحتوں اور محرومیوں ہی میں محدود تھا۔ روحانی زندگی اور اس کی سعادت و شقاوت کا کوئی تصور پیدا نہیں ہو اتھا۔

آگ کی پرستش کی قربان گاہیں بنائی جاتی تھیں۔ اور اس کے خاص پجاریوں کا ایک مقدس گر وہ بھی پیدا ہو گیا تھا۔ اس کے افراد  مو گوش کے لقب سے پکارے جاتے تھے۔ آگے چل کر اس لقب نے آتش پرستی کا مفہوم پیدا کر لیا۔ لیکن زردشت نے ان تمام باطل عقائد  کا انکار کر دیا۔

متعلقہ عنوانات