اصحاب کہف کی تفصیلات: اکیسویں قسط
غور فرمائیےکہ یسعیاہ نبی علیہ السلام کے صحیفے کا یہ جملہ صورت حال کی کیسی ہو بہو تصویر ہے کہ" وہ میرا چرواہا ہو گا۔ وہ میری ساری مرضی پوری کرے گا۔ میں اس کا داہنا ہاتھ پکڑ کر قوموں کو اس کے قابو میں دے دوں گا۔ اور بادشاہوں کی کمریں اس کے آگے کھلوا ڈالوں گا۔ میں اس کے آگے چلوں گا۔ ٹیڑھے راستے اس کے لیے سیدھے کر دوں گا۔"
سارے مورخ گواہی دے رہے ہیں کہ وہ یعنی سائرس ایک چرواہے کی طرح آیا۔ اور اس نے بندگان خدا کی رکھوالی کی۔ سب کہہ رہے ہیں کہ اس نے جس ملک کا رخ کیا اس کی شقاوت ختم ہو گئی۔ وہ جس قوم کی طرف بڑھا اس کی بیڑیاں کٹ گئیں۔ اس نے جس گروہ کے سر پر ہاتھ رکھا اس کے سارے بوجھ ہلکے ہو گئے۔ وہ صرف نبی اسرائیل ہی کا نہیں بلکہ اس عہد کی تمام قوموں کا نجات دہندہ تھا۔
یاد رہے کہ یسعیاہ نبیؑ کی اس پیشین گوئی میں اسے خدا کا مسیح بھی کہا گیا ہے۔ اور تورات کی اصطلاح میں مسیح وہ ہو تا ہے جسے خدا اپنی بر کتوں کے ظہور کے لیے برگزیدہ کرلے اور خدا کے براہ راست ممسوح ہونے کی وجہ سے مقدس ہو۔ چنانچہ حضرت داؤد ؑکی نسبت بھی آیا ہے کہ وہ مسیح تھے۔ سائرس کی نسبت بھی یہی کہا ہے اور اسی طرح بنی اسرائیل کی نجات کے لیے ایک آخری مسیح کی پیشین گوئیاں موجود ہیں۔ سائرس کو مسیح کہنا بلاشبہ اس کے تقدس اور بارگاہِ الٰہی میں بر گزیدگی کی سب سے زیادہ واضح اور قطعی اسرائیلی شہادت ہے ۔اس سلسلے میں آخری وصف جو ذوالقرنین کا سامنے آتا ہے وہ اس کا ایمان باللہ ہے۔ قرآن کی آیتیں اس بارے میں ظاہر و قطعی ہیں۔ وہ ایک خدا پرست انسان تھا۔ آخرت پر یقین رکھتا تھا۔ احکام الٰہی کے مطابق عمل کر تا تھا۔ اور اپنی تمام کامرانیوں کو اللہ کا فضل و کرم سمجھتا تھا۔ سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا سائرس کا بھی ایسا ہی اعتقاد و عمل تھا۔ لیکن تمام پچھلی تفصیلات پڑھنے کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ نہیں تھا؟
یہودیوں کے صحائف کی واضح شہادت موجود ہے کہ خدا نے اسے اپنا فرستادہ اور مسیح کہا اور وہ نبیوں کا موعود و منتظر تھا۔ ظاہر ہے کہ ایسی ہستی خدا کی نا فرمان ہستی نہیں ہو سکتی۔ جس کا داہنا ہا تھ خدا نے پکڑا ہو اور جس کی ٹیڑھی راہیں وہ درست کر تا جائے، یقیناً وہ خدا کا نا پسندیدہ بندہ نہیں ہو سکتا۔ خدا صرف انہی کا ہاتھ پکڑ تا ہے۔ جو بر گزیدہ اور مقدس ہوتے ہیں اور صرف انہی کو اپنا فرستادہ کہتا ہے جو اس کے چنے ہوئے اور اس کی درست ٹھہرائی ہوئی راہوں پر چلنے والے ہوتے ہیں۔
آج کل کے اصحاب نقد و نظر یسعیاہ نبیؑ کی اس پیشین گوئی کو مشتبہ سمجھتے ہیں کیوں کہ یہ سائرس سے ڈیڑھ سو برس پہلے کی گئی تھی۔ لیکن اگر اس سے قطع نظر کر لی جائے جب بھی صورت حال پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ کیوں کہ خود سائرس کے عہد میں جواسرائیلی نبی موجود تھے ان کی شہادتیں موجود ہیں۔ اور وہ صاف کہہ رہی ہیں کہ یہودیوں کا عام اعتقاد یہی تھا۔ اور اسی حیثیت سے اس کا استقبال کیا تھا۔ حزقیلؑ اور دانیال ؑ، سائرس کے معاصر تھے۔ اور دارا کے عہد تک زندہ رہے۔ ان دونوں کی تصریحات سائرس کی نسبت موجود ہیں، پھر دارا کے زمانہ میں حجیؑ(Haggai) اور ذکریا ؑکے صحیفے مرتب ہوئے اور زر کسیس (اردشیر یا ارتخششت ) کے عہد میں عزیرؑ (Ezra) اور نحمیاہ (Nehemiah) کا ظہور ہوا۔ ان کی سب کی شہادتیں بھی موجود ہیں اور ان سب سے قطعی طور پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سائرس نبی اسرائیل کی ایک موعود ہستی تھی۔ اور خدا نے اسے بر گزیدگی کے لیے چن لیا۔ اگر یہودیوں کا عام اعتقاد یہ تھا تو کیا ایک لمحے کے لیے یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ وہ ایک بت پرست انسان کی نسبت ایسا اعتقاد رکھنے کی جرات کرتے؟ فرض فرمائیے یہ تمام پیشین گوئیاں سائرس کے ظہور کے بعد بنائی گئیں۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ یہودیوں ہی نے بنائیں ۔ اور یہودیوں ہی میں پھیلیں۔ حتی کہ ان کی مقدس کتاب میں داخل ہو گئیں۔ پھر کیا ممکن تھا کہ بت پرست انسان کے لیے ایسی پیش گوئیاں بنائی جا سکتیں؟ کیا ممکن تھا کہ بت پرست کو اسرائیلی وحی کا ممدوح اور اسرائیلی نبیوں کا موعود بنادیا جاتا ؟