اصحاب کہف کی تفصیلات: بیسویں قسط

آکادی مملکت (Acadian Empire) کے نیم اصنامی سارگون سے لے کر نبو کد نزار (بخت نصر) تک سب کی مملکتیں اس کے آگے سربہ سجود ہو گئی تھیں۔ وہ صرف ایک بڑا فاتح ہی نہیں تھا بلکہ  وہ ایک بڑا حکمران  بھی تھا۔ قوموں نے یہ نیا  دور صرف قبول ہی نہیں کیا بلکہ اس کا استقبال کیا۔ ان دس برسوں میں جو فتح بابل کے بعد گذرے۔ اس کی تمام وسیع مملکت میں ایک بغاوت کا واقعہ بھی نظر نہیں آتا۔

بلا شبہ اس کی رعایا پر اس کی طاقت کارعب چھایا ہوا تھا۔ لیکن وہ کوئی وجہ نہیں رکھتی تھی کہ اس کی سخت گیری سے ہراساں ہو۔ اس کی حکومت قتل وسلب کی سزاؤں سے بالکل نا آشنا رہی۔ اب تازیانوں  سے  مجرموں کو نہیں پیٹا جا تا تھا اب قتل عام کے احکام صادر نہیں ہوتے تھے۔ اب قوموں اور قبیلوں کو جلاوطن نہیں کیا جا تا تھا۔

بر خلاف اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے آشوری اور بابلی بادشاہوں کے تمام مظالم کے اثرات بہ  یک جُنبشِ  قلم محو کر دیئے۔ جلاوطن قومیں اپنے اوطان میں لوٹائی گئیں۔ ان کے معبد اور معبود انہیں واپس دے دیئے گئے۔ قدیم رسموں اور عبادتوں کے خلاف کوئی جبر و تشدد باقی نہیں رہا۔ ہر قوم کے ساتھ پوری مذہبی آزادی دی گئی۔ دنیا کی گذشتہ عالم گیر دہشت ناکی کی جگہ ایک عالم گیر رواداری اور عفو و بخشش کا مبارک دور شروع ہو گیا۔ غور کیجیے کہ  قرآن نے چند لفظوں کے اندر جو اشارات کر دیئے ہیں۔ آج تاریخ کا داستان سرا کس طرح اس کے ایک ایک حرف کی شرح و تفصیل سنارہا ہے۔

اب چند لمحوں کے لیے ان تصریحات پر غور کیجیے  جو تورات کے صحائف میں درج ہیں۔ کس طرح وہ سائرس کی شخصیت کی سب سے بڑی خصوصیت واضح کر رہے ہیں۔ اور کس طرح قرآن کے اشارات بھی ٹھیک ٹھیک ان کی تصدیق ہیں۔

یسعیاہ نبی علیہ السلام  کی کتاب میں ہے کہ "خداوند کہتا ہے کہ :خورس میرا چرواہا ہے۔" اور پھر یہ بھی کہا ہے کہ " وہ میرا مسیح ہے۔" اور یرمیاہ نبی علیہ السلام کا بیان اوپر گزر چکا ہے کہ وہ بابلیوں کے ظلم سے نجات دلائے گا۔ اب دیکھیے کہ کیا  اس کی شخصیت ٹھیک ٹھیک ایک موعود اور منتظر نجات دہندہ کی شخصیت تھی یا نہ تھی؟

جب ہم اس عہد کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اور پھر سائرس کے حالات  پر نظر ڈالتے ہیں تو بہ اول نظر یہ حقیقت آشکارا ہو جاتی ہے کہ اس کا ظہور ٹھیک ٹھیک ایک ایسی شخصیت کا ظہور تھا، جس کے لیے وقت کی تمام قومیں چشم براہ ہوں۔ قوموں کا انتظار ان کی زبانوں پر نہیں ہو تا۔ ان کے حالات کے قدرتی تقاضے میں ہوتا ہے۔

غور فرمائیے ۔

اس عہد کی رفتار زمانہ کا قدرتی تقاضا کیا تھا؟ یہ تاریخ کے صبح تمدن کی وہ نمود تھی جس کی روشنی میں ہم انسانی حکمرانی کی ساری تاریکیاں پھیلی ہوئی دیکھتے ہیں۔ صاف دکھائی دیتا ہے کہ اس وقت تک انسانی فرمان روائی کی عظمت صرف قہر و غضب ہی کی نقاب میں رونما ہوئی تھی اور سب سے بڑا حکمران وہی سمجھا جا تا تھا جو سب سے زیادہ انسانوں کے لیے خوفناک ہو۔

آشور بنی پال نینوا کاسب سے بڑا بادشاہ تھا۔ اس لئے کہ وہ شہروں کے جلانے اور آبادیوں کے ویران کرنے میں سب سے زیادہ بے باک تھا۔ بابل کی نشاۃ ثانیہ میں بخت نصر  سب سے  بڑا فاتح تھا۔ اس لئے کہ قوموں کی ہلاکت اور مملکتوں کی ویرانی میں سب سے زیادہ قہرمان تھا۔ مصریوں آکادیوں، ایلامیوں، آشوریوں اور بابلیوں سب میں انسانی حکومت و عظمت کے مظاہر خوف نا کی اور د ہشت انگیزی کے مظاہر تھے۔ اور ان کی شخصیتوں نے دیوتائی الوہیت کی تقدیس سے مل کر انسانوں کے قتل و تعذیب کا ہولناک استحقاق حاصل  کر لیا تھا۔ سائرس کے ظہور سے پچاس برس پہلے بنو کر نزار یعنی بخت نصر کی شہنشاہی کا ظہور ہوا۔ اور ہمیں معلوم ہے کہ اس نے بیت المقدس پر پیہم تین حملے کر کے نہ صرف دنیا کاسب سے بڑا زرخیز علاقہ تاراج  و  ویران کر دیا بلکہ فلسطین کی پوری آبادی کواس طرح ہنکا کر بابل لے گیا کہ جوزیفس کے لفظوں میں "کوئی سخت سے سخت بے رحم قصائی بھی اس وحشت وخوں خواری کے ساتھ بھیڑوں کو مذبح  خانے میں نہیں لے جاتا" ۔

پھر کیا ان حالات کا قدرتی تقاضا یہ نہ تھا کہ دنیا ایک نئی شخصیت کے لیے چشم براہ ہو ؟ قومیں ایک نجات دہندہ کی تلاش کر رہی ہوں؟ ایک ایسے نجات دہندہ کی جو انسانوں کے گلے  یا ریوڑ کے لئے خدا کا بھیجا ہوا "چرواہا"  ہو جو  ان کی بیڑیاں کاٹے اور ان کے سروں کا بوجھ ہلکا کر دے ۔

جو دنیا کو اس ربانی صداقت کا سبق دے دے کہ انسانی حکمرانی نوع انسانی کی خدمت کے لیے ہونی چاہیے۔ دہشت انگیزی اور خوف ناکی کے لیے نہیں۔

 دنیا بادشاہوں کے ہاتھوں سے تنگ آ چکی تھی۔ اب وہ ایک "چرواہے"  کے لیے مضطرب تھی اور یسعیاہ نبیؑ کے لفظوں میں خدا کا وہ فرستادہ چرواہا نمودار ہو گیا۔

 چنانچہ ہم دیکھتے ہیں زینوفن کے لفظوں میں کہ :" قوموں نے اسے قبول ہی نہیں کیا بلکہ اس کے استقبال کے لیے بے اختیار لپکیں۔ کیوں کہ وہ وقت کی جستجو کا قدرتی سراغ اور زمانہ کی طلب کا قدرتی جواب تھا۔ اور اگر رات کی تاریکی کے بعد صبح کی روشنی کا خیر مقدم کیا جا تا ہے ، تو ممکن نہ تھا کہ انسانی شقاوت کی اس طولانی تاریکی کے بعد صبح سعادت کی اس جہاں تابی کا استقبال نہ  کیا جاتا۔

(سارگون ، یا  عظیم سارگون ، آکادی سلطنت کا بانی تھا ، جس نے چوبیسویں  صدی قبل از مسیح میں اپنی سلطنت کی بنیاد رکھی۔)

متعلقہ عنوانات