اصحاب کہف کی تفصیلات: بارہویں قسط
تمام مورخین متفق ہیں کہ اس عہد میں بابل سے زیادہ مستحکم اور نا قابل تسخیر کوئی شے نہ تھی۔ اس کی چار دیواری اتنی موٹی ، تہ در تہ اور اونچی تھی کہ اسے مسخر کرنے کا وہم و گمان بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
بایں ہمہ سائرس نے باشندگان بابل کی فریاد پر لبیک کہا اور دو آبہ کا تمام علاقہ فتح کر تاہوا شہر کے سامنے نمودار ہو گیا۔ چوں کہ خود باشندگان شہر بیل شازار کے مظالم سے تنگ آگئے تھے اور سائرس کے لیے چشم براہ تھے۔ اس لئے انہوں نے ہر طرح اس کا ساتھ دیا۔
خود بابلی حکومت کا ایک سابق گورنر گوب ریاس (Gobryas) اس کی فوج کے ساتھ تھا۔ ہیروڈوٹس کا بیان ہے کہ اس شخص نے دریا سے نہریں کاٹ کر اس کا بہاؤ دوسری طرف ڈال دیا ۔ اور دریا کی جانب سے فوج شہر میں داخل ہو گئی ۔ قبل اس کے کہ خود سائرس شہر میں پہنچے ،شہر فتح ہو چکا تھا۔
تورات کی شہادت یہ ہے کہ سائرس کا ظہور اور بابل کی فتح بنی اسرائیل کے لیے زندگی و خوش حالی کا نیا پیام تھا اور یہ ٹھیک اسی طرح ظہور میں آئی جس طرح یسعیاہ نبیؑ نے ایک سو ساٹھ برس پہلے اور یرمیاہؑ نے ساٹھ برس پہلے وحی الہی سے مطلع ہو کر خبر دے دی تھی۔ چنانچہ سائرس نے دانیال نبؑی کی نہایت تو قیر کی۔ یہودیوں کو یروشلم میں بسنے کی اجازت دے دی۔ نیز اپنی تمام مملکت میں اعلان کیا کہ خدا نے مجھے حکم دیا ہےکہ یروشلم میں اس کے لیے ایک ہیکل بناؤں (یعنی قدیم بر باد شده ہیکل سلیمانی کو از سر نو تعمیر کروں) پس تمام لوگوں کو ہر طرح کاساز و سامان اس کے لیے مہیا کرنا چاہیے ۔
اس نے سونے چاندی کے وہ تمام ظروف جو بنو کدنزار (بخت نصر) ہیکل سے لوٹ کر لایا تھا۔ بابل کے خزانہ سے نکلوائے اور یہودیوں کے ایک امیر شیش بفر کے حوالے کر دیئے کہ ہیکل کی تعمیر کے بعد اس میں بدستور رکھ دیے جائیں۔ (عزرا۔ باب اول)
بابل کی فتح کے بعد سائرس کی عظمت تمام مغربی ایشیاء میں مسلم ہو گئی۔ ۵۳۹ ق م میں صرف اس کی تنہا شخصیت عظمت و حکمرانی کے عالمگیر تخت پر نمایاں نظر آتی ہے۔ بارہ برس پہلے وہ پارس کے پہاڑوں کا ایک گمنام انسان تھا ۔ لیکن اب ان تمام مملکتوں کا تنہا فرمانروا بن چکا تھا جو صدیوں تک قوموں کی ابتدائی عظمتوں اور فتح مندیوں کا مرکز رہ چکی تھیں۔ فتح بابل کے بعد وہ تقر یادس برس تک زندہ رہا اور ۵۳۹ قبل مسیح میں انتقال کر گیا۔ اب قبل اس کے کہ قرآن کے بیان کردہ حالات پر نظر ڈالی جائے ، اس بات پر غور کر لینا چاہیے کہ انبیاء بنی اسرائیل کی پیشین گوئیاں اس شخصیت کے بارے میں کیا تھیں۔ اور یہودیوں کے اعتقاد میں کس طرح وہ حرف بہ حرف پوری ہوئیں۔
اس سلسلہ میں سب سے پہلی پیشین گوئی یسعیاہ نبیؑ کی ہے جن کا ظہور سائرس کی فتحِ بابل سے ایک سو ساٹھ برس پہلے ہوا تھا۔ انہوں نے پہلے بیت المقدس کی تباہی کی خبر دی ہےکہ بابل کے ہاتھوں بیت المقدس کی تباہی ظہور میں آئے گی۔ اس کے بعد اس کی دوبارہ تعمیر کی بشارت دی ہے اور اس سلسلہ میں خورس (سائرس) کے ظہور کا ذکر کیا ہے۔
"خداوند، یعنی تیرا نجات دینے والا یوں فرماتا ہے کہ، یروشلم پھر آباد کیا جائے گا ۔ یہودا کے شہر بنائے جائیں گے۔ میں اس کے ویران مکانوں کو تعمیر کروں گا۔ میں خورس کے حق میں کہتا ہوں کہ وہ میرا چرواہا ہے۔ وہ میری ساری مرضی پوری کرےگا۔ خداوند اپنے مسیح خورس کے حق میں یوں فرماتا ہے کہ میں نے اس کا داہنا ہاتھ پکڑا ، تا کہ قوموں کو اس کے قابو میں کر دوں اور بادشاہوں کی کمریں کھلوا دوں۔اور دہرے دروازے اس کے لیے کھول دوں۔ ہاں میں تیرے آگے چلوں گا۔ میں ٹیڑھی جگہوں کو سیدھا کروں گا۔ میں پیتل کے دروازوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا میں گڑے ہوئے خزانے اور چھپے ہوئے مکانوں کے کنج تجھے عطا کر دوں گا۔ اور یہ سب کچھ اس لئے کروں گا تاکہ تو جان لے کہ میں خداوند اسرائیل کا خدا ہوں۔ جس نے اپنی برگزیدہ قوم اسرائیل کے لیے تجھے تیرا نام صاف صاف لے کے بلایا۔ "(یسعیاہ ۲۱ : ۲۴)
اس پیشین گوئی میں خدا کا یہ فرمان نقل کیا گیا ہے کہ خورس (سائرس) میرا چر واہا ہو گا۔ اور میں نے اسے اس لیے پکارا ہے کہ نبی اسرائیل کو بابلیوں کے ظلم سے نجات دلائے۔ نیز اسے خدا کا مسیح بھی کہا ہے۔ اسی طرح یرمیاہ نبؑی نے ساٹھ برس پہلے پیشین گوئی کی تھی۔
"قوموں کے درمیان منادی کر دو۔ اور اسے مت چھپاؤ۔ تم کہو کہ بابل لے لیا گیا، بعل رسوا ہوا ، مردوک سراسیمہ کیا گیا۔ اس کے بت خَجِل ہوئے۔ اس کی مورتیں پریشان کی گئیں۔ کیونکہ شمال سے ایک قوم اس پر چڑھتی ہوئی آ رہی ہے۔ جو اس کی سرزمین اجاڑ دے گی۔ یہاں تک کہ اس میں کوئی نہیں رہے گا(۱:۵۰)
(بعل اور مردوک بابلی قوم کے بڑے دیوتا تھے، جن کی وہاں عبادت کی جاتی تھی۔
جاری ہے