اصحاب کہف کی تفصیلات: تیرہویں قسط

یرمیاہ نبیؑ نے اس بات  کی بھی پیشین گوئی کر  دی تھی کہ ستر برس تک یہودی بابل میں قید رہیں گے۔ اور اس کے بعد بیت المقدس کی نئی تعمیر ہو گی۔

"خداوند فرماتا ہے کہ  جب بابل پر ستر برس گزر چلیں گے تو میں تمہاری خبر لینے آؤں گا۔ تب تم مجھے پکارو گے۔ اور میں جواب دوں گا۔ تم مجھے ڈھونڈو گے اور مجھے پالو گے۔ میں تمہاری اسیری ختم کر دوں گا۔ تمہیں تمہارے مکانوں میں واپس لے آؤں گا۔" (۱:۲۹)

اس پیشین گوئی میں خدا نے اپنی رحمت کی واپسی کو فتح بابل کے واقعہ سے وابستہ کر دیا ہے۔ گویا سائرس کا ظہور اس کی رحمت کا ظہور ہو گا۔ جو بنی اسرائیل پر لوٹ آئے گا۔

تورات سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جب سائرس نے بابل فتح کیا تو دانیال نبیؑ نے  (جو شاہان بابل کے وزراء میں داخل ہوئے تھے) ،  اسے یسعیاہ نبیؑ کی پیشین گوئی دکھلائی کہ ایک سو ساٹھ برس پہلے اس کے ظہور کی خبر دے دی گئی تھی۔ یہ بات دیکھ کر وہ بے حد متاثر ہوا۔ اور بیان کیا جاتا ہے کہ اس کا نتیجہ وہ فرمان تھا جو اس نے ہیکل  سلیمانی کی از سرِ نو  تعمیر کے سلسلے میں  جاری کیا تھا۔

زمانہ حال کے بعد  نقاد ایسے ہیں کہ جو  ان پیشین گوئیوں کی اصلیت پر مطمئن نہیں ہیں اور وہ کہتے ہیں،کہ ہو سکتا ہے کہ یہ پیشن گوئیاں واقعات کے ظہور کے بعد بڑھادی گئی ہوں۔ خصوصاً   حضرت یسعیاہ نبی  علیہ السلام  کی پیشین گوئی جس میں صریح و واضح  خورس (سائرس) کانام موجود ہے۔ لیکن وہ اس اشتباہ کی تائید میں عقلی استغراب کے سوا اور کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتے۔ اور محض عقلی استغراب،  ان صحائف کے خلاف حجت نہیں ہو سکتا، جن کی  نسبت یہ یقین کیا گیا ہے کہ الہام سے لکھے گئے تھے۔

علاوہ بر ایں،  تورات کے آخری صحائف جو فتح بیت المقدس کے اثناء میں یا اسیری بابل کے زمانہ میں لکھے گئے ہیں، سب کے سب  تاریخی حیثیت سے محفوظ تسلیم کر لئے گئے ہیں کیوں کہ وہ اس وقت سے برابر یہودیوں میں متداول رہے ۔ اور کوئی حادثہ ایسا رونما نہیں ہوا کہ اگلے نسخے نابود ہوگئے ہوں۔  ہاں البتہ یہ ضرور ممکن ہے کہ یسعیاہ نبی علیہ السلام کی پیشین گوئی میں بھی دانیال نبی علیہ السلام  کے خواب کی طرح خورس کا نام نہ بتلایا گیا ہو۔ صرف قوم وملک کا ذکر ہوا اور بعد کو یہ نام بڑھادیا گیا ہو۔

لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہودیوں کا عام اعتقاد برابر یہی  رہا کہ سائرس کا ظہور نبیوں کی پیشین گوئی کے  عین مطابق ہوا تھا۔ اور وہ خدا   کی ایک پسندیدہ ہستی تھی۔ جواس لئے پیدا کی گئی تھی کہ مظلوموں کی داد رسی ہو اور بابلیوں کے ظلم  و شرارت سے قوموں کو نجات ملے۔

بنی اسرائیل کی روایات یعنی اسرائیلیات  ، عہد نامہ عتیق  و عہد نامہ جدید میں  موجود شواہد ، تاریخ کی گواہی اور خود محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے دیے گئے دلائل ، یہ سب تو ہمارے پاس یہاں جمع ہو گئے۔

اب  اگر ہم غور کرتے ہیں تو واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے  کہ قرآن کی تصریحات نے جو جامہ تیار کیا ہے وہ کس طرح ٹھیک ٹھیک صرف سائرس (یعنی خورس)  ہی کے جسم پر راست آتا ہے ۔

سب سے پہلے اس بات پر غور  فرمائیے کہ ذوالقرنین کی نسبت یہ  سوال نبیِ آخر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم سے   بالا تفاق یہودیوں کی جانب سے  پوچھا گیا  تھا۔ اور یہ ظاہر ہے کہ اگر کسی غیر یہودی بادشاہ کی شخصیت یہودیوں میں عزت واحترام کی نظر سے دیکھی جاسکتی تھی تو وہ صرف سائرس ہی کی تھی۔

نبیوں کی پیشین گوئیوں کا مصداق، دانیال نبیؑ کے خواب کا ظہور، رحمتِ الہیہ  کی واپسی کی بشارت، نبی اسرائیل کا نجات دہندہ، خدا کا  ایک فرستادہ ، چرواہا اور مسیح، یروشلم کی تعمیر ثانی کا وسیلہ ، پس اس سے زیادہ قدرتی  بات اور کیا ہو  سکتی ہے کہ اس ہی  کی نسبت ان کا سوال ہو ؟

(جاری ہے۔)

متعلقہ عنوانات