اصحاب کہف کی تفصیلات: تیسری قسط
اصل واقعہ
(الف) آیت 9
ام حسبت ان اصحٰب الكهف و الرقيم كانوا من اٰيتنا عجبا
کا اسلوب ِخطاب صاف کہہ رہا ہے کہ کچھ لوگ "اصحاب الکہف والرقیم" کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کا معاملہ قدرت الٰہی کا ایک عجیب و غریب کرشمہ سمجھا جاتا ہے۔ لوگوں نے پیغمبر اسلام سے ان کا ذکر کیا ہے اور اب وحِی الٰہی اس معاملہ کی حقیقت واضح کر رہی ہے ۔ چنانچہ پہلے مجملاً اس کا خلاصہ اور نتیجہ بتلا دیا کہ جو کچھ پیش آیا تھا وہ اس سے زیادہ نہیں ہے اور جو کچھ عبرت و تذکیر کی بات ہے وہ یہ ہے۔ پھر۔ آیت (۱۳) میں فرمایا۔
"نحن نقص عليك نباهم بالحق"
اب ہم تجھے ان کی سچی خبر سنا دیتے ہیں یعنی واقعہ کی چند ضروری تفصیلات بیان کر دیتے ہیں ۔ چنانچہ اس کے بعد تفصیلات بیان کی ہیں۔
یہ مجمل خلاصہ جو آیت (۱۰) سے (۱۲) تک بیان کیا ہے۔ تمام سرگذشت کا ماحصل ہے۔ اس کی روشنی میں بقیہ تفصیلات پڑھنی چاہئیں ۔
فرمایا۔
چند نوجوان تھے جنہوں نے سچائی کی راہ میں دنیا اور دنیا کی راحتوں سے منہ موڑا اور ایک غار میں پناہ گزین ہو گئے۔ ان کے پیچھے ظلم وستم کی قوتیں تھیں۔ سامنے غار کی تاریکی ،وحشت ، تاہم وہ ذرا بھی ہراساں نہ ہوئے۔ انہوں نے کہا۔ "خدایا تیری ہی رحمت کا آسرا ہے اور تیری ہی چارہ سازی کا بھروسہ " ۔ چنانچہ کئی سال تک وہ وہیں رہے اور اس طرح رہے کہ دنیا کی صداؤں کی طرف سے ان کے کان بالکل بند تھے۔ پھر ہم نے انہیں اٹھا کھڑا کیا تاکہ واضح ہو جائے۔ ان دونوں جماعتوں میں سے کون گروہ تھا جس نے اس عرصہ میں نتائج عملی کا بہتر اندازہ کیا ہے؟ یعنی صورت حال نے دو جماعتیں پیدا کر دی تھیں۔ ایک اصحاب کہف تھے، ایک ان کے مخالف۔ ایک نے حق کی پیروی کی ،دوسرے نے ظلم و تشدد پر کمر باندھی۔ یہ چند برسوں کی مدت دونوں جماعتوں پر گزری تھی۔ اس پر بھی جو غار میں پناہ لینے پر مجبور ہوئی اور اس پر بھی جس نے غار میں پناہ لینے پر مجبور کیا۔ اب دیکھنا یہ تھا کہ دونوں میں سے کس نے کیا کمایا ہے ؟ اور کس نے کیا کھویا ہے ؟ کون ان دونوں میں وقت کا بہتر اندازہ شناس تھا؟
چنانچہ آگے چل کر جو تفصیلات آتی ہیں ۔ ان سے واضح ہو جاتا ہے کہ ظالم جماعت کے ظلم کی عمر بہت تھوڑی تھی۔ اور بالآخر وہی راہ فتح مند ہونے والی تھی جو اصحاب کہف نے اختیار کی تھی۔ کیوں کہ بالآخر مسیحی دعوت تمام ملک میں پھیل گئی۔ اور جب کچھ عرصہ کے بعد وہ غار سے نکلے اور ایک آدمی کو آبادی میں بھیجا تواب مسیحی ہونا کوئی نا قابلِ معافی جرم نہیں تھا، عزت وسر براہی کی سب سے بڑی عظمت تھی۔ صاف معلوم ہو تا ہے کہ یہ ان پرستارانِ حق کی استقامت ہی تھی، جس نے دعوتِ حق کو فتح مند کیا۔ اگر وہ مظالم سے تنگ آکر اتباع حق سے دست بردار ہو جاتے تو یقینا یہ انقلاب ظہور میں نہیں آتا۔ (ب) اس کے بعد واقعہ کی بعض تفصیلات واضح کر دی گئی ہیں۔ جو لوگ خدا پرستی کی راہ اختیار کرتے تھے۔ ان کی مخالفت میں تمام باشندے کمر بستہ ہو جاتے ۔ اور اگر وہ اپنی روش سے باز نہ آتے تو سنگسار کر دیے جاتے۔ یہ حالت دیکھ کر انہوں نے فیصلہ کیا کہ آبادی سے منہ موڑ یں۔ اور کسی غار میں معتکف ہو کر ذکر الٰہی میں مشغول ہو جائیں۔ چنانچہ ایک غار میں اعتکاف اختیار کیا۔
غار کی نوعیت:
ان کا ایک وفادار کتا تھا۔ وہ بھی ان کے ساتھ غار میں چلا گیا۔ جس غار میں انہوں نے پناہ لی ،وہ اس طرح کی واقع ہوئی ہے کہ اگر چہ اندر سے کشادہ ہے ، اور دہانہ کھلا ہوا۔ لیکن سورج کی کرنیں اس میں راہ نہیں پاسکتیں۔ نہ چڑھتے دن میں نہ ڈھلتے دن میں۔ جب سورج نکلتا ہے تو داہنی جانب رہتے ہوئے گزر جاتا ہے۔ جب ڈھلتا ہے تو بائیں جانب رہتے ہوئے غروب ہو جاتا ہے۔ یعنی غار اپنے طول میں شمال و جنوب رویہ واقع ہے۔ ایک طرف دہانہ ہے۔ دوسری طرف منفذ۔
روشنی اور ہوا دونوں طرف سے آتی ہے۔ لیکن دھوپ کسی طرف سے بھی راہ نہیں پاسکتی۔ اس صورت حال سے بیک وقت دو باتیں معلوم ہوئیں۔
جاری ہے