اصحاب کہف کی تفصیلات: بائیسویں قسط
یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اجنبیوں اور غیر اسرائیلیوں کے خلاف یہودیوں کا تعصب بہت ہی سخت تھا۔ ان کے نسلی غرور پر اس سے زیادہ اور کوئی بات شاق نہیں گزرتی تھی کہ کسی غیر اسرائیلی انسان کی بزرگی کا اعتراف کر یں۔ ظہور اسلام کے وقت بھی یہی بات انہیں اعتراف حق سے روکتی تھی کہ
"ولا تو منوا الّا لمن تبع دينكم۔ (۷۳:۳)
اور کسی پر ایمان نہ لاؤ ، مگر اس پر جو تمہارے دین کی پیروی کرے۔"
تاہم وہ سائرس کی فضیلت کے آگے جھک گئے جو ان کے لیے ہر اعتبار سے اجنبی تھا۔ اور نہ صرف اس کی بزرگی ہی کا اعتراف کیا بلکہ اس کو نبیوں کا موعود اور خدا کا برگزیدہ تسلیم کر لیا۔ یہ صورت حال اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ سائرس کی شخصیت ان کے لیے بڑی ہی محبوب شخصیت تھی۔ اور اس کی فضیلتیں ایسی قطعی اور آشکارا تھیں کہ ان کے اعتراف میں نسلی عصبیت کا جذبہ بھی حائل نہ ہو سکا۔ ظاہر ہے کہ ایک بت پرست انسان کے لیے جو اجنبی بھی ہو ، یہودیوں میں ایسی محبوبیت نہیں پیدا ہو سکتی تھی۔ اگر ایک بت پرست بادشاہ نے انہیں ظالم حکمران کے ظلم سے نجات دلائی تھی تو وہ اس کی شاہانہ عظمتوں کی مداحی کرتے، مگر خدا کا مسیح اور برگزیدہ کبھی نہ سمجھتے۔ ضروری ہے کہ اس کی فضیلتیں مذہبی ہوں ۔ ضروری ہے کہ مذہبی حیثیت سے بھی عقائد پر ان کا اتفاق موجود ہو۔ یہ یہودیوں کی پوری تاریخ میں غیر اسرائیلی فضیلت کے اعتراف کا تنہا واقعہ ہے۔ اور ممکن نہیں کہ یہ اتفاق ایک ایسے انسان کے لیے ہوا ہو ،جسے وہ مذہبی حیثیت سے محترم نہ سمجھتے ہوں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ سائرس کے دینی عقائد کے بارے میں ہماری معلومات کیا ہیں ؟ تاریخی حیثیت سے یہ امر قطعی ہے کہ سائرس زردشت کا پیرو تھا، جسے یونانیوں نے "زار دست رو" کے نام سے پکارا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ غالباً اس سائرس ہی کی شخصیت ہے جو اس نئی دعوت کی تبلیغ و عروج کا ذریعہ ہوئی۔ اس نے فارس اور میڈیا میں نئی شہنشاہی کی بنیاد ہی نہیں رکھی تھی بلکہ قدیم مجوسی دین کی جگہ نئے زردشتی دین کی بھی تخم ریزی کی تھی۔ وہ ایران کی نئی شہنشاہی اور نئے دین دونوں کا بانی تھا۔
زردست (یا زرتشت)کی ہستی کی طرح اس کے ظہور کا زمانہ اور محل بھی تاریخ کا ایک مختلف فیہ موضوع بن گیا ہے۔ اور انیسویں صدی کا پورا زمانہ مختلف نظریوں اور قیاسوں کی رد و کد میں بسر ہو چکا ہے۔ بعضوں کو اس کی تاریخی ہستی ہی سے انکار ہوا۔ بعضوں نے شاہنامہ کی روایت کو ترجیح اور گشتاسپ (جسے یونانیوں نے Hystaspes کا نام دیا) والا قصہ درست تسلیم کر لیا، بعضوں نے اس کا زمانہ ایک ہزار برس قبل مسیح قرار دیا۔ بعضوں نے یہ مدت دو ہزار برس قبل مسیح تک بڑھادی۔ اسی طرح اس کے محل کے تعین میں بھی اختلاف ہوا۔ بعضوں نے باختر ، بعضوں نے خراساں ، بعضوں نے میڈیا اور شمالی ایران قرار دیا۔ لیکن اب بیسویں صدی کی ابتدا سے اکثر محققین اور تاریخ دان اس رائے پر متفق ہوگئے ہیں اور عام طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے کہ زردشت کازمانہ وہی تھا جو سائرس کا تھا۔ اور گشتاسپ والی روایت اگر صحیح ہے تو اس سے مقصود وہی گشتاسپ ہے، جو دارا کا باپ اور ایک صوبہ کا گورنر تھا۔ زردشت کا ظہور شمال مغربی ایران یعنی آذربایجان میں ہوا جیسا کہ اوستا (Avesta) کے حصہ ویندی داد میں تفصیل سے واضح طور پر بیان کیا گیاہے۔
البتہ کامیابی باختر میں ہوئی۔ جس کا گورنر گشتاسپ کا تھا۔
تحقیق کے مطابق زردشت کاسال وفات تقریبا ۵۵۰ قبل مسیح سے لے کر ۵۸۳ قبل مسیح تک ہونا چاہیے۔ اور سائرس کی تخت نشینی بالا تفاق پانچ سو پچاس قبل مسیح میں ہوئی، یعنی زردشت کی وفات کے تیس سال بعد یا عین اسی سال۔ لیکن اگر سائرس زردشت کا معاصر تھا تو کیا کوئی براہ راست تاریخی شہادت موجود ہے۔ جس سے اس کا دین زردشتی قبول کرنا ثابت ہو؟ نہیں ہے ،لیکن اگر وہ تمام قرائن جمع کئے جائیں جو خود تاریخ کی روشنی نے مہیا کر دیے ہیں تو یقیناً ایک بالواسطہ شہادت نمایاں ہو جاتی ہے اور اس میں کچھ شبہ باقی نہیں رہتا کہ سائرس نہ صرف دین زردشتی پر عامل تھا بلکہ اس کا پہلا حکمران داعی تھا۔ اور اس نے یہ ورثہ اپنے جانشینوں کے لیے چھوڑا جو دوسو برس تک بلا استثناء دین زردشتی پر عمل پیرا رہے۔
اس سلسلے میں سب سے زیادہ روشنی جن واقعات سے پڑتی ہے وہ دو ہیں۔ اور دونوں کی تاریخی نوعیت مُسَلّم ہے۔ پہلا واقعہ گوماتہ کی بغاوت کا ہے جو سائرس کی وفات کے آٹھ برس بعد ظہور میں آئی۔ دوسرا دارا کے وہ کتبے ہیں ، جن سے اس کے دینی عقائد کی نوعیت آشکار ہو گئی ہے