اصحاب کہف کی تفصیلات: دسویں قسط
دو سینگوں کا تخیل ابتداء میں کیوں کر پیدا ہوا؟ کیا اس کی بنیاد حضرت دانیال علیہ السلام کا خواب تھا؟ یا بطور خودسائرس نے یا باشندگانِ پارس نے یہ تخیل پیدا کیا؟
اس کا فیصلہ مشکل ہے۔ لیکن اگر تورات کی روایات تسلیم کر لی جائیں تو سائرس سے لے کر آر ٹاز رکیسز (ار تخششت )اول تک تمام شہنشاہان ِ پارس، بنی اسرائیل کے انبیا کرام علیھم السلام سے عقیدت رکھتے تھے۔ اس لئے ہو سکتا ہے کہ اس خواب سے ذوالقرنین کا لقب پیدا ہو گیا ہو ۔ بہر حال اب اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہی کہ سائرس کو ذوالقرنین سمجھا جاتا تھا۔ اور یقینا عرب کے یہودی بھی اسے اسی لقب سے پکارا کرتے تھے۔
اس حقیقت کی وضاحت کے بعد جب سائرس کے ان حالات پر نظر ڈالی جاتی ہے جو یونانی مورخوں کی زبانی ہم تک پہنچتے ہیں تو معلوم ہو تا ہے کہ قرآن کے بیان کی ہو بہو تصویر ہے۔ اور دونوں بیان اس درجہ باہم مطابقت رکھتے ہیں کہ ممکن نہیں کسی دوسری شخصیت کاوہم و گمان بھی کیا جا سکے۔
یہ یاد رکھنا چاہئے کہ شاہانِ فارس کے ناموں نے مختلف زبانوں میں مختلف صورتیں اختیار کر لی ہیں۔ اور اس کی وجہ سے مورخوں نے سخت غلطیاں کی ہیں۔ سائرس کا اصلی نام غائبا گور د، یا گوروش تھا۔ جیسا کہ دارا کے کتبۂ بے ستون سے معلوم ہو تا ہے ۔ لیکن یونانی اسے سائرس Cyrus کہنے لگے تھے ۔ اور یہودیوں نے اس کا تلفظ خورس کی شکل میں کیا۔ چنانچہ یسیار، ارمیا اور دانیال کے صحائف میں جا بجا یہ نام آیا ہے۔ اور یہی گورش ہے۔ جس نے عربی میں خسرو کی شکل اختیار کر لی۔ چنانچہ عرب مورخ اسے کیخسرو کے نام سے پکارتے ہیں۔
سائرس کالڑکا کیم بی سیز Cambyses ہوا۔ یہ بھی یونانی تلفظ ہے۔ اس کا پارسی نام کیوچیہ تھا۔ جس نے یہودیوں اور عربوں کی زبان پر یہ کیقیاد کی شکل اختیار کی۔ شاہنامہ نے بھی اس کو اختیار کیا۔ کیوں کہ اس کی بنیاد عربی تراجم پر تھی۔ کیقیاد کے بعد دار یوش ہوا۔ جسے عام طور پر دارا کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اور تورات میں بھی یہی نام آیا ہے۔ دارا کے بعد آر ٹازر کیسز ہے۔ اسے تورات میں ارتخششت کے نام سے یاد کیا ہے۔ اور عربوں میں اس کا نام اردشیر مشہور ہو گیا۔
زمانہ حال کے محققین ِتاریخ نے فارس کی تاریخ کو تین زمانوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا عہد اسکندر کے حملے سے پہلے کا ہے۔ دوسرا پارتھوی یا ملوک الطوائف کا۔ تیسر اساسانی سلاطین کا۔
فارسی شہنشاہی کی عظمت کا اصلی عہد وہی ہے جو اسکندر کے حملے سے پہلے گزرا۔ اور جس کی تاریخ سائرس کے ظہور سے شروع ہوتی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے اس عہد کے حالات معلوم کرنے کے براہ راست ذرائع مفقود ہو گئے ہیں۔ جس قدر بھی حالات روشنی میں آئے ہیں ، وہ تمام تر یونانی تحریروں سے ماخوذ ہیں۔ان میں زیادہ اعتماد کے قابل تین مورخ ہیں۔
ہیروڈوٹس Herodotus
ٹی سیاز Ctesias اور
زینوفن Xenophon
ایران کی فتح کے بعد جب عرب مورخین نے ایران کی تاریخ مرتب کرنا چاہی تو انہیں جس قدر مواد ہاتھ آیا وہ تمام تر پارسیوں کی قومی روایات پر مشتمل تھا۔ ان روایات میں اسکندر کے حملے سے پہلے کازمانہ اسی طرح کے قومی افسانوں کی نوعیت رکھتا ہے، جس طرح ہندوستان میں پرانوں کے افسانے یا مہا بھارت اور رامائن کے قصے ہیں۔ البتہ پچھلے دو عہدوں کی روائتیں تاریخی بنیادوں پر مبنی تھیں۔ جب دقیقی اور فردوسی نے شاہنامہ کو نظم کرنا چاہا تو انہیں عربی میں یہی مواد ملا اور اسی کو انہوں نے نظم کا جامہ پہنادیا۔ پس یہ تمام ذخیر ہ قبل از سکندر عہد کے لیے کچھ سود مند نہیں ہے۔ اور سائرس کے حالات کے لیے ہمیں تمام تر یونانی مورخین کی شہادت ہی پر اعتماد کرنا پڑتا ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پانچ سو ساٹھ برس پہلے ایران کی سرزمین دو مملکتوں میں بٹی ہوئی تھی۔ جنوبی حصہ پارس کہلا تا تھا اور شمالی مغربی حصہ میڈیا ۔ چونکہ ان کے ہمسایہ میں آشوری اور بابلی حکومتیں انتہائی عروج تک پہنچ چکی تھیں۔اس لئے قدرتی طور پر یہ، ان سے دبی ہوئی تھیں۔ دونوں مملکتوں میں مختلف قبائل کے امرا تھے۔جو اپنے اپنے حلقوں میں قبائلی حکومت رکھتے تھے۔
612 قبل مسیح میں ، جب نینوا تباہ ہو گیااور آشوری فرماں روائی ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی تو میڈیا کے باشندے آزاد ہو گئے۔اور بتدریج ایک قومی حکومت نشو و نما پانے لگی۔ اسی طرح پارس کے امراء قبائل میں سے بھی بعض امیروں کو سر اٹھانے کا موقع ملا۔ اور حکمران خاندان پیدا ہو گیا۔ تا ہم یہ دونوں مملکتیں وقت کی بے اثر حکومتیں تھیں اور بابل کی شہنشاہی جسے بخت نصر کی قہارانہ فتح مندیوں نے تمام ایشیاء میں سر بلند کر دیا تھا۔ سب پر چھائی ہوئی اور سب کو مقہور کئے ہوئے تھی۔
دارا کے کتبۂ بے ستون میں اس میڈیا کا نام "مادا" آیا ہے۔ اس لئے میڈیا کو اس کا نویانی تلفظ سمجھنا چاہیے۔ عرب مورخوں نے اسے" ماہات" سے تعبیر کیا ہے۔
جاری ہے۔