اصحاب کہف کی تفصیلات: چھٹی قسط
گزشتہ سے پیوستہ
مسیحی دعوت کے ابتدائی قرنوں ہی میں زہدوانزوا کی ایک خاص زندگی شروع ہو گئی تھی۔ جس نے آگے چل کر رہبانیت کی مختلف شکلیں اختیار کر لیں۔ اس زندگی کی ایک نمایاں خصوصیات یہ تھی کہ لوگ ترک علایق کے بعد کسی پہاڑ میں یا کسی غیر آباد گوشہ میں مختلف ہو جاتے تھے
اور پھر ان پر استغراق عبادت کی ایسی حالت طاری ہو جاتی تھی کہ وضع ونشت کی جو حالت اختیار کر لیتے اس میں پڑے رہتے یہاں تک کہ زندگی ختم ہو جاتی۔ مثلاً اگر قیام کی حالت میں مشغول ہوئے تھے، تو برابر کھڑے ہی رہتے اور اسی حالت میں جان دے دیتے۔ اگر گھٹنے کے بل رکوع کی حالت اختیار کی تھی تو یہی حالت آخر تک قائم رہتی۔ اگر سجدے میں سر رکھ دیا تھا تو پھر سجدے ہی میں پڑے رہتے۔ اور مرنے کے بعد بھی اسی وضع میں نظر آتے۔ زیادہ تر گھٹنے کے بل رکوع کی وضع اختیار کی جاتی تھی۔ کیوں کہ عیسائیوں میں تعبد و تضرع کے لئے یہی وضع رائج ہو گئی تھی۔۔ غذا کی طرف سے یہ لوگ بالکل بے پروا ہوتے تھے۔ اگر آبادی قریب ہوتی تو لوگ روٹی اور پانی پہنچادیا کرتے، نہیں ہوتی تو یہ جستجو نہیں کرتے ۔ عبادت کا استغراق جستجو کی مہلت ہی نہیں دیتا۔ اس اعتبار سے ان کی حالت ویسی ہی تھی۔ جیسی ہندوستان کے جوگیوں کی رہ چکی ہے۔ اور اب بھی گاہ گاہ نظر آجاتی ہے۔ جس طرح زندگی میں انہیں کوئی نہیں چھیڑتا تھا، اسی طرح مرنے کے بعد بھی کوئی اس کی جرات نہ کر تا۔ مدتوں تک ان کی نعشیں اسی حالت میں باقی رہتیں جس حالت میں انہوں نے زندگی کے آخری لمحے بسر کئے۔
اگر موسم موافق ہوتا اور درندوں سے حفاظت ہوتی تو صدیوں تک ڈھانچے باقی رہتے اور فاصلہ سے دیکھنے والا انہیں زندہ انسان تصور کر تا۔ چنانچہ وٹیکان کے تہ خانوں میں بے شمار ڈھانچے آج تک محفوظ ہیں، جو اس طرح کے مقامات سے بر آمد ہوئے تھے، اور اپنی اصل وضع اور ہیت پر باقی تھے۔
ابتدا میں اس غرض سے زیادہ تر پہاڑوں کی غاریں یا پرانی عمارتوں کے کھنڈراختیار کیے گئے تھے۔ لیکن آگے چل کر یہ طریقہ اس درجہ عام ہو گیا کہ خاص عمارتیں اس غرض سے تعمیر کی جانے لگیں۔ یہ عمارتیں اس طرح بنائی جاتی تھیں کہ ان میں آمدورفت کے لیے کوئی دروازہ نہیں ہو تا تھا کیوں کہ جو جاتا تھا، وہ پھر باہر نہیں نکلتا تھا۔ صرف ایک چھوٹی سی سلاخ دار کھڑکی رکھی جاتی تھی جو ہوا اور روشنی کا ذریعہ ہوتی اور اسی کے ذریعے لوگ غذا بھی پہنچادیتے۔
بعد کو جب مناسٹک ازم (رہبانیت) کے باقاعدہ ادارے قائم ہو گئے تو اس طرح کے انفرادی انزوا کی مثالیں کم ہوتی گئیں۔ تاہم تاریخ کی شہادت موجود ہے کہ ازمنہ وسطی تک یہ طریقہ عام طور پر جاری تھا۔ اور یورپ کی کوئی آبادی ایسی نہ تھی جو اس طرح کی عمارتوں سے خالی ہو۔ ان مقامات کو عام طور پر Logette کہتے تھے اور جب ایک راہب یا راہبہ کا ان میں انتقال ہو جاتا تو ان پر لاطینی لفظ کندہ کر دیا جا تا TU-ORA
یعنی اس کے لیے دعا کرو۔
تمام تاریخیں متفق ہیں کہ مسیحی رہبانیت سب سے پہلے مشرق میں شروع ہوئی۔اور اس کا بڑا مرکز فلسطین اور مصر تھا۔ پھر چوتھی صدی مسیحی میں یہ یورپ پہنچی۔ اور سینٹ بنی ڈکٹ Benedict نے سب سے پہلے اس کے قواعد وضوابط منضبط کئے۔ سینٹ بینی ڈکٹ نے بھی ایک پہاڑ کی غار ہی میں گوشہ نشینی اختیار کی تھی۔
مسیحی رہبانیت کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اس کی ابتدا ، اضطراری حالات سے ہوئی تھی۔ آگے چل کر اس نے ایک اختیاری عمل کی نوعیت پیدا کر لی۔ یعنی ابتداء میں لوگوں نے مخالفوں کے ظلم و تشدد سے مجبور ہو کر غاروں اور جنگلوں میں گوشہ نشینی اختیار کی۔ پھر ایسے حالات پیش آئے کہ اضطراری طریقہ زہد و تعبد کا ایک اختیاری اور مقبول طریقہ بن گیا۔ مزید تشریح اس مقام کی سورۃ حدید کی تشریحات میں ملے گی۔
بہر حال، معلوم ہو تا ہے کہ اصحاب کہف کا معاملہ بھی تمام تراسی نوعیت کا تھا۔ ابتدا میں قوم کے ظلم نے انہیں مجبور کیا تھا کہ غار میں پناہ لیں۔ لیکن جب کچھ عرصہ تک وہاں مقیم رہے تو زہد و عبادت کا استغراق کچھ اس طرح ان پر چھا گیا کہ پھر دنیا کی طرف لوٹنے پر آمادہ نہ ہو سکے۔ اور گو ملک کی حالت بدل چکی تھی، لیکن وہ بدستور غار ہی میں معتکف رہے۔ یہاں تک کہ ان کا انتقال ہو گیا۔
انتقال اس حال میں ہوا کہ جس شخص نے ذکر و عبادت کی جو وضع اختیار کر لی تھی، وہی وضع آخری لمحوں تک باقی رہی۔ ان کے وفادار کتے نے بھی آخر تک ان کا ساتھ دیا۔ وہ پاسبانی کے لیے دہانے کے قریب بیٹھا رہتا تھا۔ جب اس کے مالک مر گئے تو اس نے بھی وہیں بیٹھے بیٹھے دم توڑ دیا۔
اب اس واقعہ کے بعد غار کے اندرونی منظر نے ایک عجیب دہشت انگیز نوعیت پیدا کر لی ۔ اگر کوئی باہر سے جھانک کر دیکھے تو اسے راہبوں کا ایک پورا مجمع ذکر و تعبد میں مشغول دکھائی دے گا۔ کوئی گھٹنے کے بل رکوع کی حالت میں ہے کوئی سجدے میں پڑا ہے کوئی ہاتھ جوڑے اوپر کی طرف دیکھ رہا ہے۔دہانے کے قریب ایک کتا ہے، وہ بھی بازو پھیلائے باہر کی طرف منہ کئے ہوئے ہے۔ یہ منظر دیکھ کر ممکن نہیں کہ آدمی دہشت سے کانپ نہ اٹھے۔ کیوں کہ اس نے یہ سمجھ کر جھانکا تھا کہ مر دوں کی قبر ہے۔ مگر منظر جو دکھائی دیا وہ زندہ انسانوں کا ہے۔