اصحاب کہف کی تفصیلات:سولہویں قسط
قرآن نے اس مہم کا حال ان لفظوں میں بیان کیا ہے ۔
حتیٰ اذا بلغ بين السدين وجدمن دونهما قوما لا يكادون يفقهون قولا (۹۳)
"یہاں تک کہ وہ دو پہاڑی دیواروں کے درمیان پہنچ گیا۔ ان کے اس طرف اسے ایک قوم ملی جو کوئی بات بھی سمجھ نہیں سکتی تھی۔"
پس صاف معلوم ہو تا ہے کہ" سدین "سے مقصو کاکیشیا کا پہاڑی درہ ہے کیوں کہ اس کے داہنی طرف بحر خزر ہے۔ جس نے شمال اور مشرق کی راہ روک دی ہے۔ بائیں جانب بحر اسود سے جو شمال مغرب کے لیے قدرتی روک ہے۔ درمیانی علاقے میں اس کا سر بفلک سلسلہ کوہ ایک قدرتی دیوار کا کام دے رہا ہے ۔ پس اگر شمالی قبائل کے حملوں کے لیے کوئی راہ باقی رہی تھی تو وہ صرف اس سلسلہ کوہ کا ایک عریض درہ یاوسطی وادی تھی۔ اور یقینا وہیں سے یاجوج ماجوج کو دوسری طرف پہنچنے کا موقعہ ملتا تھا۔ اس راہ کے بند ہو جانے کے بعد نہ صرف بحر خزر سے لے کر بحر اسود تک کا علاقہ محفوظ ہو گیا۔ بلکہ سمندروں اور پہاڑوں کی ایک ایسی دیوار قائم ہو گئی جس نے تمام مغربی ایشیا کو اپنی پاسبانی میں لے لیا ۔ اور شمال کی طرف سے حملے کا کوئی خطرہ باقی نہ رہا۔ اب ایران شام، عراق، عرب ایشیائے کوچک بلکہ مصر بھی شمال کی طرف سے بالکل محفوظ ہو گیا تھا۔ نقشہ میں یہ مقام دیکھیں تو تمام مغربی ایشیا نیچے ہے۔ اور شمال میں بحر خزر ہے۔ اس سے بائیں جانب شمال مغرب میں بحر اسود ہے۔ درمیان میں بحر خزر کے مغربی ساحل سے بحر اسود کے مشرقی ساحل تک کاکیشیا کا سلسلہ کوہ چلا گیا ہے۔ ان سمندروں اور درمیان کے سلسلہ کوہ نے مل کر سینکڑوں میلوں تک ایک قدرتی روک پیدا کر دی ہے۔ اب اس روک میں اگر کوئی شگاف رہ گیا تھا۔ جہاں سے شمالی اقوام کے قدم اس رکاوٹ کوپھلانگ سکتے تھے تو صرف یہی دو پہاڑوں کے درمیان کی راہ تھی۔ ذوالقرنین نے اسے بھی بند کر دیا۔ اور اس طرح شمال اور مغربی ایشیا کا یہ درمیانی پھاٹک پوری طرح مقفل ہو گیا۔
باقی رہا یہ سوال کہ وہاں جو قوم ذوالقرنین کو ملی تھی۔ اور جو بالکل نا سمجھ تھی۔ وہ کون سی قوم تھی؟ تو اس سلسلے میں دو قومیں نمایاں ہوتی ہیں۔ اور دونوں کا اس زمانہ میں وہاں قریب قریب آباد ہونا تاریخ کی روشنی میں آچکا ہے۔ پہلی قوم وہ ہے جو بحر خزر کے مشرقی ساحل پر آباد تھی۔ اسے یونانی مورخوں نے کیسپین کے نام سے پکارا ہے۔ اور اسی کے نام سے بحر خزر کا نام کیسپین پڑ گیا۔ دوسری قوم وہ ہے جو اس مقام سے آگے بڑھ کر عین کاکیشیا کے دامن میں آباد تھی۔ یونانیوں نے اسے کول شی کے نام سے پکارا ہے۔ اور دارا کے کتبہ میں اس کانام کوشیہ آیا ہے ۔ ان ہی دو قوموں میں سے کسی نے یادونوں قوموں نے ذوالقرنین سے یاجوج ماجوج کی شکایت کی ہو گی۔اور چونکہ یہ غیر متمدن قومیں تھیں۔ اس لئے ان کی نسبت فرمایا کہ
لايكادون يفقهون قولا
اس کے بعد ذوالقرنین کاجو وصف سامنے آتا ہے وہ اس کی عدالت گستری اور خدمت انسانی کی فیاضانہ سرگرمی ہے اور یہ اوصاف سائرس کی تاریخی سیرت کی اس درجہ آشکارا حقیقتیں ہیں کہ مورخ کی نگاہ کسی دوسری طرف اٹھ ہی نہیں سکتی۔
قرآن سے معلوم ہو تا ہے کہ اسے مغرب میں جو قوم ملی تھی اس کی نسبت حکم الہی ہوا تھا۔
"یاذاالقرنین !اما أن تعذب وإما أن تتخذ فيهم حسنا (۸۲) "
"یعنی یہ قوم اب تیرے بس میں ہے۔ جس طرح چاہے تو ان کے ساتھ سلوک کر سکتا ہے۔ خواہ سزا دے خواہ انہیں اپنا دوست بنالے۔"
یقینا یہ لیڈیا کی یونانی قوم تھی۔ اس کے بادشاہ کروئسس نے تمام عہد و پیمان اور باہم رشتہ داریاں بھلا کر بلاوجہ سائرس پر حملہ کر دیا تھا۔ اور صرف خود ہی حملہ آور نہیں ہوا تھا۔ بلکہ وقت کی تمام طاقت ور حکومتوں کو بھی اس کے خلاف ابھار کر اپنے ساتھ کر لیا تھا۔ اب جب تائید الہی نے اپنا کر شمہ دکھایا اور لیڈ یا مسخر ہو گیا تو حکم الہی ہوا ۔ یہ لوگ بالکل تیرے رحم پر ہیں۔ جس طرح تو چاہے ان کے ساتھ سلوک کر سکتا ہے۔ کیوں کہ یہ اپنے ظلم و شرارت کی وجہ سے ہر طرح سزا کے مستحق ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ تائید الہی نے تیرا ساتھ دیا۔ دشمنوں کو مسخر کر دیا ۔ اب وہ بالکل تیرے اختیار میں ہیں۔ لیکن تجھے بدلہ نہیں لینا چاہیے۔ وہی کرنا چاہیے جو نیکی اور فیاضی کا مقتضا ہے۔ چنانچہ ذوالقرنین نے ایسا ہی کیا۔ آیۃ نمبر 88 کے مطابق اس نے اعلان کیا کہ میں پچھلے جرم کی بنا پر کسی کو سزا نہیں دینا چاہتا۔ میری جانب سے عام بخشش کا اعلان ہے۔ البتہ آئندہ جو کوئی برائی کرے گا بلا شبہ اسے سزادوں گا۔ پھر اسے مرنا ہے۔ اور آخرت کا عذاب سخت جھیلنا ہے۔ اور جو لوگ میرے احکام مانیں گے۔ اور نیک کردار ثابت ہوں گے تو ان کے لیے ویسا ہی بہتر اجر بھی ہو گا۔ اور وہ میرے احکام بھی بہت آسان پائیں گے۔ میں بندگان خدا پر سختی کرنا نہیں چاہتا۔ یہ ہو بہو اس طرز عمل کی تصویر ہے جس کی تفصیل ہمیں یونانی تاریخوں کے صفحات میں ملتی ہے اور جسے زمانہ حال کے تمام محققین تاریخ نے ایک مسلمہ تاریخی حقیقت تسلیم کر لیا ہے۔