اصحاب کہف کی تفصیلات: ساتویں قسط
اب اس واقعہ کے بعد غار کے اندرونی منظر نے ایک عجیب دہشت انگیز نوعیت پیدا کر لی ۔ اگر کوئی باہر سے جھانک کر دیکھے تو اسے راہبوں کا ایک پورا مجمع ذکر و تعبد میں مشغول دکھائی دے گا۔ کوئی گھٹنے کے بل رکوع کی حالت میں ہے کوئی سجدے میں پڑا ہے کوئی ہاتھ جوڑے اوپر کی طرف دیکھ رہا ہے۔دہانے کے قریب ایک کتا ہے، وہ بھی بازو پھیلائے باہر کی طرف منہ کئے ہوئے ہے۔ یہ منظر دیکھ کر ممکن نہیں کہ آدمی دہشت سے کانپ نہ اٹھے۔ کیوں کہ اس نے یہ سمجھ کر جھانکا تھا کہ مر دوں کی قبر ہے۔ مگر منظر جو دکھائی دیا وہ زندہ انسانوں کا ہے۔
یہ تفسیر سامنے رکھ کر معاملہ کے تمام پہلوؤں پر نظر ڈالی جائے تو ہر بات اس طرح واضح ہو جاتی ہے۔ گویا تمام قفلوں کو کھلنے کے لیے صرف ایک کنجی کا انتظار تھا ۔
تحسبھم ایقاظاً وھم رقود
کا مطلب بھی ٹھیک ٹھیک اپنی جگہ بیٹھ گیا۔ کسی دور از کار توجیہہ کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ کیونکہ اس طرح کا منظر یہی خیال پیدا کرے گا کہ لوگ زندہ ہیں۔ حالانکہ زندہ نہیں
لواطلعت عليهم لوليت منهم فرارا ولملئت منهم رعبا
کی علت بھی سامنے آگئی اور وہ تمام بے معنی تو جیہیں غیر ضروری ہو گئیں، جن پر امام رازی مجبور ہوئے ہیں۔ اگر تم کسی قبر کے اندر جھانک کر دیکھو اور تمہیں مردہ نعش کی جگہ ایک آدمی نماز پڑھتا دکھائی دے تو تمہارا کیا حال ہو گا؟ یقیناً مارے دہشت کے چیخ اٹھو گے۔ اس طرح
" ونقلبهم ذات اليمين وذات الشمال "
کی تفسیر میں بھی کسی تکلف کی احتیاج باقی نہیں رہی۔ غار شمال و جنوب رویہ واقع تھا، اور ان دونوں جہتوں میں ہوا اور روشنی کے منافذ تھے۔ جیسا کہ آیت
وترى الشمس إذا طلعت
سے متبادر ہو تا ہے۔ پس بالمقابل منافذ ہونے کی وجہ سے ہوا برابراندر چلتی رہتی تھی۔اور ان کے ڈھانچے داہنے سے بائیں اور بائیں سے داہنی جانب اس طرح متحرک رہتے تھے جیسے ایک زندہ آدمی ایک طرف سے پلٹ کر دوسری طرف دیکھے ۔
اس تفسیر کے بعد اس سوال کاجواب بھی خود بخود مل گیا کہ قرآن نے خصوصیت کے ساتھ یہ بات کیوں بیان کی کہ سورج کی کر نیں غار کے اندر نہیں پہنچتیں، جیسا کہ سورۃ کہف کی آیت ۱۷ میں ہے اور کیوں اسے قدرت الہی کی ایک نشانی فرمایا کہ
ذٰلك من آيات اللہ
معلوم ہو گیا کہ یہ در اصل اس بات کی تمہید تھی جو بعد میں آیت ۱۸ میں بیان کی گئی ہے کہ
تحسبهم أيقاظا وهم رقود
یعنی چونکہ یہ بات بیان کرنی تھی کہ مرنے کے بعد ان کی نعشیں عرصہ تک باقی رہیں۔ حتی ٰکہ دیکھنے والوں کو زندہ انسانوں کا گمان ہو تا تھا۔ اس لئے پہلے اس کی علت واضح کر دی کہ جس غار میں معتکف ہوئے تھے۔ وہ اس طرح کی غار تھی کہ انسانی جسم زیادہ سے زیادہ عرصہ تک اس میں قائم رہ سکتا تھا۔ کیونکہ سورج کی روشنی اس میں پہنچتی رہتی۔ لیکن سورج کی تپش کا اس میں گزر نہ تھا۔ جو چیز نعش کو جلد گلا سڑا دیتی ہے وہ سورج کی تپش ہے۔ اور جو چیز تازگی پیدا کرتی ہے وہ ہوا اور روشنی ہے۔ ہوا چلتی رہتی ،روشنی پہنچتی رہتی۔ مگر تپش سے پوری حفاظت تھی۔ "ذٰلك من آيات الله"
ولبثوافي کهفهم ثلاث مائة سنين واذدادوا تسعا ۔ کا کیا مطلب ہے؟
کیا یہ خود قرآن کی تصریح ہے کہ وہ لوگ اتنی مدت تک غار میں پڑے رہے ؟ لیکن اگر ایسا ہے تو پھر اس کے بعد کیوں فرمایا کہ
"قل الله أعلم بما لبثوا "
مفسرین کواس اشکال کو دور کرنے میں طرح طرح کے تکلفات کرنا پڑے۔ حالانکہ صاف مطلب وہی ہے جو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ یعنی جس طرح پہلے ان کی تعداد کے بارے میں لوگوں کے مختلف اقوال نقل کئے تھے ، اسی طرح یہاں مدتِ بقا کے بارے میں لوگوں کا قول نقل کیا ہے۔ یعنی لوگ کہتے ہیں کہ غار میں تین سو برس تک رہے۔ بعضوں نے اس پر نوسو برس اور بڑھادیے۔ تم کہد و، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ فی الحقیقت کتنی مدت گزر چکی تھی۔
۔ پس یہ قرآن کی تصریح نہیں ہے لوگوں کا قول ہے۔اور "سیقولون"
سے نقل اقوال کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، اس سلسلے کی یہ آخری کڑی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی ایسی ہی تفسیر مروی ہے۔
(ط)امام قرطبی نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ
" اولئك قوم فنوا و عدموا منذ مدة طویلہ "
یعنی اصحاب کہف کی موت پر ایک مدت گزر چکی ہے۔ ان کے اجسام فنا ہو گئے ۔ جس طرح ہر جسم فنا ہو جاتا ہے۔ ایک روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شام کے غزوات میں بعض صحابہ کا گذر اصحاب کہف کی غار پر ہوا تھا اور انہیں ان کی ہڈیاں ملی تھیں۔ اگر یہ روایت صحیح ہو تو اس سے اس کی بھی مزید تصدیق ہو گئی کہ یہ واقعہ پیٹرا میں پیش آیا تھا۔ مسیحی رہبانیت کے طریقہ کی نسبت مندرجہ صدر بیان میں جو اشارات کیے گئے ہیں ، ان کی تفصیلات کے لیے حسب ذیل کتابیں دیکھنی چاہئیں۔
The Paradise or Garden of the Holy Fathers by E.A.W. Budge.
The Evolution of the Monastic ideal by H. B. Workman
Five centuries of Religion by George Gordon Coulton
The Medieval Mind by Henry Osborn Taylor