اصحاب کہف کی تفصیلات: نویں قسط

بنی اسرائیل کے نبی حضرت دانیال  علیہ السلام کا خواب

اگر ذوالقرنین کے مفہوم کا کوئی سراغ ملتا تھا،  تو وہ صرف ایک دُور کا اشارہ تھا۔ جو حضرت دانیال  علیہ السلام کی کتاب میں ملتا ہے۔ یعنی ایک خواب انہوں نے بابل کی اسیری کے زمانہ میں دیکھا تھا۔

بابل کی اسیری کا زمانہ یہودیوں کے لیے نہایت مایوسی کا زمانہ تھا۔ ان کی قومیت پامال ہو چکی تھی۔  ان کا ہیکل منہدم ہو چکا تھا ۔ ان کے شہر اجاڑ تھے اور وہ نہیں جانتے تھے کہ اس ہلاکت کے بعد ان کی زندگی کا کیا سامان ہو سکتا ہے۔ اس زمانہ میں حضرت دانیال کا ظہور ہوا۔ جو اپنے علم و حکمت کی وجہ سے  شاہِ  بابل کے دربار میں نہایت مقرب ہوگئے تھے۔ انہیں کی نسبت تورات میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ "بیلش فار" نامی  شاہِ  بابل کی سلطنت کے تیسرے برس انہوں نے ایک خواب دیکھا تھا ۔ اور اس خواب میں آنے والے واقعات کی بشارت دی گئی تھی۔ چنانچہ کتابِ دانیالؑ میں ہے۔

"مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ ندی کے کنارے ایک مینڈھا کھڑا ہے۔ جس کے دو سینگ اونچے تھے۔ لیکن ایک دوسرے سے بڑا تھا۔ اور بڑا دوسرے کے پیچھے تھا۔ میں نے دیکھا کہ پچھم  (مغرب)  اترا اور دکھن (جنوب) کی طرف وہ سینگ مارتا ہے۔ یہاں تک کہ کوئی جانور اس کے سامنے کھڑا نہ رہ سکا۔ اور وہ بہت بڑا ہو گیا۔ میں یہ بات سوچ ہی رہا تھا کہ دیکھا پچھم کی طرف سے ایک بکرا  آ کے تمام روئے زمین پر پھر گیا۔ اس بکرے کی دونوں آنکھوں کے درمیان ایک عجیب طرح کا سینگ تھا۔ وہ دو سینگ والے مینڈھے کے پاس آیا اور اس پر غضب سے بھڑ کا ۔ اور اس کے دونوں سینگ توڑ ڈالے اور مینڈھے کو قوت نہ تھی کہ اس کا مقابلہ کرے۔"

پھر اس کے بعد ہے کہ جبریل نمایاں ہوا اور اس نے اس خواب کی یہ تعبیر بتائی کہ دو سینگوں والا مینڈھا میڈیا(شمال مشرقی ایران اور آزربائیجان کی ایک قدیم سلطنت ) اور فارس کی بادشاہت ہے۔ اور ایک سینگ والا بکرا یونان کی  بادشاہت۔  جو بڑاسینگ اس کی آنکھوں کے درمیان دکھائی دیا ہے۔ وہ اس کا پہلا بادشاہ ہو گا۔ اس بیان سے معلوم ہوا کہ مادہ (میڈیا) اور فارس کی مملکتوں کو دو سینگوں سے تشبیہ دی گئی تھی۔ اور چونکہ یہ دونوں مملکتیں مل کر مستقبل میں ایک شہنشاہی بننے والی تھی۔ اس لئے شہنشاہِ  مادہ و فارس کو دو سینگوں اور مینڈھے کی شکل میں ظاہر کیا گیا۔ پھر اس مینڈھے کو جس نے شکست دی وہ یونان کے بکرے کا پہلا سینگ تھا۔ یعنی سکندر مقدونی تھا۔ جس نے فارس پر حملہ کیا اور کیانی شہنشاہی کا خاتمہ ہو گیا۔ اس خواب میں بنی اسرائیل کے لیے بشارت یہ تھی کہ ان کی آزادی و خوش حالی کا نیا دور اسی دو سینگوں والی شہنشاہی کے ظہور سے وابستہ تھا۔ یعنی شہنشاہ فارس بابل پر حملہ کر کے فتح مند ہونے والا تھا۔ اور پھر اس کے ذریعہ بیت المقدس کی از سر نو تعمیر اور یہودی قومیت کی دوبارہ شیرازہ بندی ہونے والی تھی۔ چنانچہ برسوں کے بعد سائرس کا ظہور ہوا۔ اس نے میڈیا اور پارس کی مملکتیں ملا کر ایک عظیم الشان شہنشاہی قائم کر دی۔ اور پھر بابل پر پے در پے حملے کر کے اسے مسخر کر لیا۔

چونکہ اس خواب میں میڈیا اور فارس کی مملکتوں کو دو سینگوں سے تشبیہ دی گئی تھی۔ اس لئے خیال ہو تا تھا کہ عجب نہیں فارس کے شہنشاہ کے لیے یہودیوں میں ذوالقرنین کا تصور پیدا ہو گیا ہو ۔ یعنی دو سینگوں والی شہنشاہی اور وہ اسے اس لقب سے پکارتے ہوں۔ تاہم یہ محض ایک قیاس تھا اس کی تائید میں کوئی تاریخی شہادت موجود نہ تھی۔ لیکن ۱۸۳۸ء کے ایک انکشاف نے، جس کے نتائج بہت عرصہ کے بعد منظر عام پر آئے،  اس قیاس کو ایک تاریخی حقیقت ثابت کر دیا ۔ اور معلوم ہو گیا کہ فی الحقیقت شہنشاہ سائرس کا لقب ذوالقرنین تھا۔ اور یہ سب محض یہودیوں کا کوئی مذہبی تخیل نہ تھا۔ بلکہ خود سائرس کا باشندگان فارس کا مجوزہ اور پسندیدہ نام تھا۔ اس انکشاف نے شک و تخمین کے تمام پردے اٹھادے۔ یہ خود سائرس کا ایک سنگی تمثال ہے جو استخر (Pasargadoe) کے کھنڈروں میں دستیاب ہوا۔ اس میں سائرس کا جسم اس طرح دکھایا گیا ہے کہ اس کے دونوں طرف عقاب کی طرح پر نکلے ہوئے ہیں اور سر پر مینڈھے کی طرح دو سینگ ہیں۔ اوپر خطِ منحنی میں جو کتبہ کندہ تھا اس کا بڑا حصہ ٹوٹ کر ضائع ہو چکا ہے۔ مگر جس قدر باقی ہے وہ اس کے لیے کافی ہے کہ تمثال کی شخصیت واضح ہو جائے۔اس سے معلوم ہو گیا کہ میڈیہ اور فارس کی مملکتوں کو دو سینگوں سے تشبیہ دینے کا تخیل ایک مقبول اور عام تخیل تھا۔ اور یقیناً سائرس کو ذوالقرنین کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ تمثال میں پردوں کا ہونا اس کے ملکوتی صفات وفضائل کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ نہ صرف پارسیوں میں بلکہ تمام معاصر قوموں میں یہ اعتقاد عام طور پر پیدا ہو گیا تھا کہ وہ ایک  غیر معمولی نوعیت کا انسان ہے۔

متعلقہ عنوانات