اصحاب کہف کی تفصیلات: انیسویں قسط
سائرس اور سکندر، ایک موازنہ:
سکندر اعظم کو ارسطو کی تعلیم و تربیت نے تیار کیا تھا۔ اور بلا شبہ وہ دنیا کی تاریخ کا بہت بڑا فاتح نکلا۔ لیکن کیا انسانیت و اخلاق کا بھی کوئی گوشہ فتح کر سکا؟ سائرس کے لئے ہمیں کوئی ارسطو نہیں ملتا۔ اس نے انسانی حکمت کی درس گاہ کی جگہ قدرت کی درس گاہ میں پرورش پائی تھی۔ تاہم اس نے سکندر کی طرح صرف ملکوں ہی کو نہیں بلکہ انسانیت و فضائل کی مملکتوں کو بھی مسخر کر لیا تھا۔ سکندر کی تمام فتوحات کی عمر اس سے زیادہ نہ تھی، جتنی خود اس کی عمر تھی۔ لیکن سائرس کی فتوحات نے جو اینٹیں چن دی تھیں وہ دو سو برس تک نہ ہِل سکیں۔ سکندر کے دم توڑتے ہی اس کی مملکت کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ لیکن سائرس نے جب دنیا چھوڑی تو اس کی مملکت روز بروز وسیع و مستحکم ہونے والی تھی۔ اس کی فتوحات میں صرف مصر کا خانہ خالی رہ گیا تھا۔ اس کے فرزند ، کیقباد نے اسے بھی بھر دیا۔ اور پھر چند برسوں کے بعد دنیا کی عالم گیر سلطنت ظہور میں آگئی جو ایشیا، افریقہ اور یورپ کے اٹھائیس ملکوں میں پھیلی ہوئی تھی۔ اور اس پر سائرس کا پڑپوتا ، داریوش تن تنہا حکمران تھا۔
سکندر کی فتوحات صرف جسم کی فتوحات تھیں، جنہیں قہر و طاقت نے سر کیا تھا۔ لیکن سائرس کی فتوحات روح ودل کی فتوحات تھیں۔ جنہیں انسانیت وفضیلت نے سر کیا تھا۔ پہلی سر اٹھاتی ہے لیکن دیر تک ٹِک نہیں سکتی۔ دوسری ٹِک جاتی ہے اور پھر ٹلتی نہیں۔ سائر س فتح بابل کے بعد دس برس تک زندہ رہا۔ اب اس کی حکومت عرب سے لے کر بحر اسود تک اور ایشیائے کو چک سے بلخ تک پھیلی ہوئی تھی اور ایشیاء کی تمام قومیں اس کے ماتحت آ چکی تھیں۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ اس تمام عرصہ میں بعاوت اور سرکشی کا ایک حادثہ بھی نہیں ہوا۔ کیوں کہ زینوفن کے لفظوں میں وہ صرف بادشاہ ہی نہ تھا۔ بلکہ انسانوں کا شفیق مربی اور قوموں کا رحم دل باپ تھا اور رعایا سخت گیر حکمرانوں سے بغاوت کر سکتی ہے ،لیکن اولاد اپنے شفیق باپ سے باغی نہیں ہو سکتی۔ موجودہ زمانے کے تمام مورخ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ایک حیرت انگیز خصوصیت تھی۔ یہ ایسی خصوصیت تھی جو آگے چل کر رومن ایمپائر کو بھی نصیب نہ ہوئی۔
سب متفقہ شہادت دیتے ہیں کہ اس عہد کے بادشاہوں کی سخت گیری، سخت دلی ، ظالمانہ طبیعت اور ہیبت انگیز طریقہ تعذیب کی چھوٹی سے چھوٹی مثال بھی سائرس کے عہد میں نہیں ملتی۔
یاد رہے کہ یہ محض قدیم یونانی مورخوں کی روایات ہی نہیں بلکہ موجودہ زمانے کے تمام محققینِ تاریخ کی تاریخی مسلمات ہیں۔ بالا تفاق یہ بات تسلیم کر لی گئی ہے کہ سائرس تاریخ قدیم کی سب سے بڑی شخصیت ہے۔ جس میں بیک وقت فتوحات کی وسعت ، فرمانروائی کی عظمت اور اخلاق انسانیت کی فضیلت جمع ہو گئی تھی۔ اور وہ جس عہد میں ظاہر ہوا، اس عہد میں اس کی شخصیت ہر اعتبار سے انسانیت کا ایک پیام اور قوموں کی نجات تھی۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جی بی گرنڈی G.B.Grundy جو موجودہ زمانہ میں تاریخ قدیم کے ایک مستند ماہر ہیں اور جن کی کتاب گریٹ پرشین وارGreat Persian War
نہایت مقبول ہو چکی ہے ۔ لکھتے ہیں:۔
"یہ حقیقت بالکل آ شکارا ہے کہ سائرس کی شخصیت اپنے عہد کی ایک غیر معمولی شخصیت تھی۔اس نے اپنی تمام معاصر قوموں کے دلوں پر اپنا حیرت انگیز تاثر نقش کر دیا۔ اس کی ابتدائی نشو و نما بالائی فارس کے غیر آباد اور دور دراز گوشوں میں ہوئی۔ جس کی سرگذشت نے ایک افسانہ کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔اس کی ابتدائی تربیت کی روایتیں اس سے ڈیڑھ سو برس بعد زینوفن نے مدون و مرتب کیں جو سقراط کا شاگرد تھا۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام روایتوں میں اس کا فضائلِ انسانیت کا جوہر عام طور پر نمایاں ہے، خواہ ہم ان روایتوں کو اہمیت دیں ، یا نہ دیں۔ تاہم یہ حقیقت ہر حال میں غیر متزلزل رہتی ہے کہ اس کی تدبیر وسیاست کا دامن اس کی انسانیت وفضیلت کے جوہر سے بندھا ہوا تھا۔ اور جب یہ خصوصیت آشوری و بابلی شہنشاہوں کی بدعملیوں کے مقابلے میں لائی جاتی ہے، تو اس کی شریفانہ نمود اور زیادہ درخشندہ ہو جاتی ہے ۔"
پھر آگے چل کر پروفیسر گرنڈی لکھتے ہیں:۔
"یہ فی الحقیقت ایک حیرت انگیز کامیابی تھی۔ بارہ برس پہلے وہ ایک چھوٹی سی ریاست "انشان" کا ایک گمنام رئیس تھا۔ اور اب ایشیاء کی وہ تمام مملکتیں اس کے زیر فرمان تھیں جہاں پچھلی قوموں کی بڑی بڑی عظمتیں ظہور میں آ چکی تھیں۔ان تمام بادشاہتوں میں، جنہوں نے زمین کے مالک ہونے کے دعوے کئے، ایک بادشاہت بھی ایسی نہ تھی جو اب اپنی ہستی کا کوئی موثر ظہور رکھتی ہو۔"