اصحاب کہف کی تفصیلات: چوتھی قسط

گزشتہ سے پیوستہ
ان کا ایک وفادار کتا تھا۔ وہ بھی ان کے ساتھ غار میں چلا گیا۔ جس غار میں انہوں نے پناہ لی ،وہ اس طرح کی واقع ہوئی ہے کہ اگر چہ اندر سے کشادہ ہے ، اور دہانہ کھلا ہوا۔ لیکن سورج کی کرنیں اس میں راہ نہیں پاسکتیں۔ نہ  چڑھتے دن میں نہ ڈھلتے دن میں۔ جب سورج نکلتا ہے تو داہنی جانب رہتے ہوئے گزر جاتا ہے۔ جب ڈھلتا ہے تو بائیں جانب رہتے ہوئے غروب ہو جاتا ہے۔ یعنی غار اپنے طول میں شمال و جنوب رویہ واقع ہے۔ ایک طرف دہانہ ہے۔ دوسری طرف منفذ۔

 

روشنی اور ہوا دونوں طرف سے آتی ہے۔ لیکن دھوپ کسی طرف سے بھی راہ نہیں پاسکتی۔ اس صورت حال سے بیک وقت دو باتیں معلوم ہوئیں۔

ایک یہ کہ زندہ رہنے کیلیے وہ نہایت محفوظ اور موزوں مقام ہے۔ کیونکہ ہوا اور روشنی کی راہ موجود ہے۔ مگر دھوپ کی تپش نہیں پہنچ سکتی۔ پھر اندر سے کشادہ ہے، جگہ کی کمی نہیں ۔ دوسری یہ کہ باہر سے دیکھنے والوں کیلیے اندر کا منظر بہت ڈراؤنا ہو گیا ہے۔ کیونکہ روشنی کے منافذ موجود ہیں اس لیے بالکل اندھیرا نہیں رہتا۔ سورج کسی وقت سامنے آتا نہیں اس لیے بالکل اجالا بھی نہیں ہو تا۔ روشنی اور اندھیرے کی ملی جلی حالت رہتی ہے۔ اور جس غار کی اندرونی فضا ایسی ہو۔اسے باہر سے جھانک کر دیکھا جائے تو اندر کی ہر چیز ایک بھیانک منظر پیش کرے گی۔

 

یہ لوگ کچھ عرصہ تک غار میں رہے اس کے بعد نکلے تو انہیں کچھ اندازہ نہ تھا کہ کتنے عرصہ تک اس میں رہے ہیں ۔ وہ سمجھتے تھے باشندوں کاوہی حال ہوگا جس حال میں انہیں چھوڑا تھا۔ لیکن اس عرصہ میں یہاں انقلاب ہو چکا تھا۔ اب غلبہ ان لوگوں کا تھا جو اصحاب کہف ہی کی طرح خدا پرستی کی راہ اختیار کر چکے تھے۔ جب ان کا ایک آدمی شہر میں پہنچا تو اسے دیکھ کر حیرت ہوئی۔

 

اب وہی لوگ جنہوں نے انہیں سنگسار کرنا چاہا تھا۔ ان کے ایسے معتقد ہو گئے کہ ان کے غار نے زیارت گاہ عام کی حیثیت اختیار کر لی۔ اور امراء شہر نے فیصلہ کیا کہ یہاں ایک ہیکل تعمیر کیا جائے۔

 اصحاب کہف نے یہ مدت کس حال میں بسر کی تھی؟ اس  بارے میں قرآن نے صرف اس قدر اشارہ کیا ہے کہ

 فضربناعلی آذانهم في الكهف سنين عدد۔

 ضرب علی آذان کے صاف معنی تو یہ ہیں کہ ان کے کان دنیا کی طرف سے بند ہو گئے تھے۔ یعنی دنیا کی کوئی

صدا ان تک نہیں پہنچتی تھی۔ لیکن مفسرین نے اسے نیند پر محمول کیا ہے۔

یعنی ان پر نیند طاری ہو گئی تھی۔اور چونکہ نیند کی حالت میں آدمی کوئی آواز نہیں سنتا۔ اس لیے اس حالت کو "ضرب علی الآذان"  سے تعبیر کیا گیا۔ اس تفسیر میں اشکال یہ ہے کہ عربی میں نیند کی حالت کیلیے ضرب علی الآذان کی تعبیر ملتی نہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں یہ ایک طرح کا استعارہ ہے۔ گہری نیند کی حالت کو ضرب على الاذان  کی حالت سے تشبیہ دی گئی ۔

 اصل یہ ہے کہ اصحاب کہف کاجو قصہ عام طور پر مشہور ہو گیا تھا، وہ یہی تھا کہ غار میں برسوں تک سوئے رہے۔ اس لیے یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ بعد کو بھی اس طرح کی رواتیں مشہور ہو گئیں۔ عرب میں قصہ کے اصلی راوی شام کے نبطی تھے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس قصہ کی اکثر تفصیلات تفسیر کے انہی راویوں پر جاکر منتہی ہوتی ہیں،  جو اہل کتاب کے قصوں کی روایت میں مشہور ہو چکے ہیں۔ مثلا ضحاک اور سیدی۔ بہر حال، اگر یہاں ضرب على الاذان سے مقصود نیند کی حالت ہو تو پھر مطلب  یہی قرار پائے گا کہ وہ غیر معمولی مدت تک نیند کی حالت میں پڑے رہے۔ اور"ثم بعثنا هم" کا مطلب یہ کرنا پڑے گا کہ اس کے بعد نیند سے بیدار ہو گئے۔

یہ بات کہ ایک آدمی پر غیر معمولی مدت تک نیند کی حالت طاری رہے۔ اور وہ پھر بھی زندہ رہے، طبی تجارب کے مسلمات میں سے ہے۔ اور اس کی مثالیں ہمیشہ تجربے میں آتی رہتی ہیں۔ پس اگر اصحاب کہف پر قدرت الٰہی سے کوئی ایسی حالت طاری ہو گئی ہو جس نے غیر معمولی مدت تک انہیں سلائے رکھا تو یہ کوئی مستعد بات نہیں۔ البتہ قرآن حکیم کی تصریح اس بارے میں ظاہر اور قطعی نہیں ہے اس لیے احتیاط اس میں ہے که حزم ویقین کے ساتھ کچھ نہ کہا جائے۔

 وتحسبهم أيقاظاً  وهم رقود

میں اس صورت حال کی طرف اشارہ کیا ہے جو نزول قرآن کے وقت تھی۔ یا جو حالت اس غار کی ایک مدت تک رہی۔ اس سے معلوم ہوا کہ انقلاب حال کے بعد اصحاب کہف نے غار کی گوشہ نشینی ترک نہیں کی تھی۔ اس میں رہے۔ یہاں تک کہ انتقال کر گئے۔ ان کے انتقال کے بعد غار کی حالت ایسی ہو گئی کہ باہر سے کوئی دیکھے تو معلوم ہو کہ زندہ آدمی موجود ہیں۔ دہانے کے قریب ایک کتا دونوں ہاتھ آگے کیے بیٹھا ہے۔ حالا نکہ نہ تو آدمی زندہ  ہیں،  نہ کتا ہی زندہ ہے۔

جاری ہے

متعلقہ عنوانات