اصحاب کہف کی تفصیلات: چودھویں قسط

علامہ آلوسی  کی تفسیر میں بیان کردی  ایک روایت میں بھی( جو قرطبی وغیرہ نے نقل کی ہے) اس طرف صریح اشارہ ملتا ہے ۔

 قال قالت اليهود:" أخبرنا  عن نبیِ  لم يذكر الله في التورات الافي مكان واحد" قال:"ومن ؟ " قالوا  "ذوالقرنین ۔"

یعنی یہودیوں نے آنحضرت سے کہا: ۔"  اس کی نسبت ہمیں خبر دی جیے،  جس کا تذکرہ  تورات میں  صرف ایک بار اللہ تعالیٰ نے فرمایا  ہے ۔"  آپ ﷺ  نے فرمایا ، "وہ  کون ؟ "انہوں نے کہا: " ذوالقرنین۔"

 چوں کہ سائرس کے ذوالقرنین ہونے کا اشارہ صرف دانیال نبیؑ کے خواب ہی میں آیا ہے۔اس لئے یہودیوں کا یہ بیان ٹھیک اسی طرف اشارہ تھا۔

علاوہ  بر  ایں ،  سائرس کے تمثال کے انکشاف نے قطعی طور پر یہ بات آشکار کر دی ہے کہ اس کے سر پر دو سینگوں کا تاج رکھا گیا تھا اور یہ فارس اور مادہ  (میڈیا )کی مملکتوں کے اجتماع و اتحاد کی علامت تھی۔

اس کے بعد قرآن کی تصریحات سامنے لائی جائیں  تو  سب سے پہلا وصف جو اس کا بیان کیا  گیا ہے  ، وہ یہ ہے کہ

"انامكنا لہ  فی الأرض واٰتینا ہُ مِن كل شئي  سببا" (سورۃ کہف : آیۃ 84)

"ہم نے اسے زمین میں قدرت دی تھی۔ اور ہر طرح کا ساز و سامان مہیا کر دیا تھا۔"   

قرآن جب کبھی انسان کی کسی کامرانی وخوشحالی کو براہ راست خدا کی طرف منسوب کر کے کہتا ہے ،جیسا کہ یہاں آیا ہے ،  تو اس سے مقصود عموماً  کوئی ایسی بات ہوتی ہے جو عام حالات کے خلاف محض اس کے فضل وکرم سے ظہور میں آئی ہو۔ مثلا حضرت یوسفؑ  کی نسبت فرمایا:

" كذلك مكنا ليوسف في الارض "

(سورۃ یوسف: آیۃ  56)

"اس طرح ہم نے سرزمین مصر میں یوسف کو حکومت دے دی۔ "

"ہم نے دے دی "، کیوں کہ یہ ظاہر ہے کہ حضرت یوسف کو ہر طرح کے ناموافق حالات میں محض فضل ِ  الٰہی سے ایک غیر معمولی بات حاصل ہو گئی تھی۔ یہ بات نہ تھی کہ عام حالات کے مطابق ظہور میں آئی ہو۔ پس ضروری ہے کہ ذوالقرنین کو بھی حکمرانی کا مقام ایسے ہی حالات میں ملا ہو جو بالکل غیر معمولی قسم کے ہوں۔ اور انہیں محض توفیقِ الٰہی کی کرشمہ سازی سمجھا جا سکے۔ کیوں کہ اس کے تمکن فی الارض کو براہ راست خدا کی طرف نسبت دی گئی  ہے۔

 لیکن اس اعتبار سے سائرس کی زندگی ٹھیک ٹھیک اس آیت کی تصویر ہے۔اس کی ابتدائی زندگی ایسے حالات میں بسر ہوئی جنہیں حیرت انگیز حوادث نے ایک افسانہ کی شکل دے دی ہے۔ قبل اس کے کہ وہ پیدا ہو، خود اس کا نانا اس کی موت کا خواہش مند ہو گیا تھا۔ ایک وفادار آدمی  نے اس کی زندگی بچائی۔اور وہ شاہی خاندان سے بالکل الگ ہو کر ایک گمنام گڈریے کی طرح پہاڑوں میں زندگی بسر کر تا  رہا ۔ پھر اچانک نمایاں ہو  گیا   اور بغیر کسی جنگ و مقاتلہ کے میڈیا کا تخت اس کے لیے خالی ہو  گیا۔

 یقینا ًیہ صورت حال واقعات و حوادث کی عام رفتار نہیں ہے جو ہمیشہ پیش آتی ہو۔  یہ نوا در ہستی کی ایک غیر معمولی عجائب آفرینی ہے۔ اور صاف نظر آرہا ہے کہ قدرت کا مخفی ہاتھ کسی خاص مقصد سے ایک خاص ہستی تیار کر رہا ہے اور زمانہ کی عام رفتار تھم گئی ہے تاکہ اس کی راہ صاف ہو جائے۔

اس کے بعد اس کی تین بڑی مہموں کا ذکر آتا ہے۔ ایک مغرب الشمس کی طرف یعنی پچھم کی طرف،  ایک مطلع الشمس کی طرف یعنی پورب کی طرف  اور تیسری ایک ایسے مقام تک جہاں کوئی وحشی قوم آباد تھی۔ اور یا جوج اور ماجوج وہاں آ کر لوٹ مار مچایا کرتے تھے۔ اب دیکھیے کہ  یہ تمام تفصیلات کس طرح ٹھیک ٹھیک سائرس کی فتوحات پر منطبق ہوتی ہیں۔

یاد رہے کہ پچھم اور  پورب  کے لیے مغرب الشمس اور مطلع الشمس کی تعبیر  تورات میں بھی جا بجا آئی ہے۔ مثلا ذکر یا نبیؑ کی کتاب میں ہے۔

"رب الافواج فرماتا ہے میں اپنے لوگوں کو سورج نکلنے کے ملک اور اس کے ڈوبنے کے ملک سے چھڑالوں گا۔"( ۷:۸)

اوپر  ہم  پڑھ  چکے ہیں  کہ سائرس نے ابھی فارس اور میڈیا کا تاج سر پر رکھا ہی تھا کہ ایشیائے کو چک کے بادشاہ کروئسس  نے حملہ کر دیا ۔ ایشیائے کو چیک کی یہ بادشاہت جو لیڈیا کے نام سے مشہور ہوئی ،  سائرس سے  پچھلی صدی کے اندر ابھری تھی۔ اس کا دار الحکومت سارڈیس (Sardis) تھا۔ سائرس کی تخت نشینی سے پہلے میڈیا اور لیڈیا میں کئی جنگیں ہو چکی تھیں۔

بالآخر کروئسس کے باپ نے سائرس کے نانا  ، استیاگس کے باپ سے صلح کر لی۔ اور باہمی اتحاد کے استحکام کے لیے باہمی ازدواج کارشتہ بھی قائم ہو گیا۔ لیکن کروئسس نے یہ تمام عہد و پیماں اور باہمی  رشتے بھلادیئے ۔ وہ سائرس کی کامرانی برداشت نہ کر  سکا کہ فارس اور میڈیا کی مملکتیں متحد ہو کر ایک عظیم مملکت کی حیثیت اختیار کر رہی ہیں۔ اس نے پہلے بابل مصراور اسپارٹا کی مملکتوں کواس کے خلاف ابھارا اور پھر اچانک حملہ کر کے سرحدی شہر پٹیریا (Pteria) پر قبضہ کر لیا۔

اب سائرس مجبور ہو گیا کہ بلا توقف وہ اس حملہ کا مقابلہ کرے ۔ وہ میڈیا کے دارالحکومت سے (جواب ہمدان کے نام سے پکارا جاتا ہے ) نکلا اور اس تیزی کے ساتھ بڑھا کہ صرف دو جنگوں کے بعد پٹیریا اور سارڈیس سمیت  لیڈیا کی تمام مملکت پر قابض ہو گیا۔

متعلقہ عنوانات