اصحاب کہف کی تفصیلات: پہلی قسط

واقعہ اصحاب کہف (ایک جھلک)

 

سورۂ کہف آیت ۹ سے اصحاب کہف کی سرگذشت شروع ہوئی

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:۔

 

یہ چند نوجوان تھے جنہوں نے اللہ کی رحمت پر بھروسہ کیا تھا۔ اور ایک پہاڑ کے غار میں جاچھپے تھے۔ کئی برسوں تک یہ اس میں پوشیدہ رہے۔ آبادی سے ان کا کوئی تعلق نہ رہا۔ زندگی کی کوئی صدا ، ان کے کانوں تک نہیں پہنچتی تھی۔ پھر وہ اٹھائے گئے، یعنی ظاہر ہوئے اور یہ سارا معاملہ اس لئے ہوا کہ واضح ہو جائے، کہ  دونوں جماعتوں میں سے کون سی جماعت ایسی تھی جو اس وقت کے واقعات اور ان کے نتائج کا بہتر اندازہ کر سکتی تھی۔ دو جماعتوں سے مقصود اصحاب کہف اور ان کی قوم و ملک کے لوگ ہیں۔

یہ گویا اس تمام معاملے کا ماحصل ہے۔ اس کے بعد اس کی ضروری تفصیلات آتی ہیں۔ چنانچہ آیت ۱۳ میں فرمایا۔ نحن نقص عليك نباهم بالحق

(الف)

ایک گمراہ اور ظالم قوم سے چند حق پرست نوجوانوں کا کنارہ کشی کر لینا اور ایک پہاڑ کے غار میں جاکر پوشیدہ ہو جانا۔ ان کی قوم چاہتی تھی کہ  انہیں سنگسار کر دے یا  جبراً  اپنے دین میں واپس لے آئے۔ انہوں نے دنیا چھوڑ دی مگر حق سے منہ نہ موڑا۔

(ب)

جب وہ غار میں اٹھے تو اس کا اندازہ نہ کر سکے کہ کتنے عرصہ تک یہاں رہے ہیں۔ انہوں نے اپنا ایک آدمی شہر میں کھانا لانے کیلئے بھیجا۔ اور کوشش کی کہ کسی کو خبر نہ ہو۔ لیکن حکمت الٰہی کا فیصلہ دوسرا تھا۔ خبر ہو گئی  اور یہ معاملہ لوگوں کیلئے تذکیر و عبرت کا موجب ہوا۔

(ج)

جس قوم کے ظلم سے عاجز ہو کر انہوں نے غار میں پناہ لی تھی وہی ان کی اس درجہ معتقد ہوئی کہ ان کے مرقد پر ایک ہیکل تعمیر کیا گیا۔

اس واقعہ کی تفصیلات لوگوں کو معلوم نہیں۔ طرح طرح کی باتیں مشہور ہو گئی ہیں۔ بعض کہتے ہیں وہ تین آدمی تھے۔ بعض کہتے ہیں پانچ تھے۔ بعض کہتے ہیں سات تھے۔ مگر یہ سب اندھیرے میں تیر چلاتے ہیں۔ حقیقت حال اللہ ہی کو معلوم ہے اور غور کرنے کی بات یہ نہیں ہے کہ ان کی تعداد کتنی تھی؟ دیکھنا چاہیے کہ ان کی حق پرستی کا کیا حال تھا؟

مسیحی مذہب کے ابتدائی قرنوں میں متعدد واقعات ایسے گزرے ہیں کہ راسخ الاعتقاد عیسائیوں نے مخالفوں کے ظلم و وحشت سے تنگ آکر پہاڑوں کے غاروں میں پناہ لے لی۔اور آبادیوں سے کنارہ کش ہو گئے۔ یہاں تک کہ وہیں وفات پاگئے اور ایک عرصہ کے بعد ان کی نعشیں بر آمد ہوئیں۔ چنانچہ ایک واقعہ خود روم کے اطراف میں گذرا تھا۔ ایک انطاکیہ کی طرف منسوب ہے۔ ایک افس میں بیان کیا جا تا ہے ۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اس سورۃ میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ کہاں پیش آیا تھا؟ قرآن نے کہف کے ساتھ  الر قیم  کا لفظ بھی بولا ہے اور بعض آئمہ تابعین نے اس کا یہی مطلب سمجھا تھا کہ یہ ایک شہر کانام ہے۔ لیکن چونکہ اس نام کا کوئی شہر عام طور پر مشہور نہ تھا۔ اس لئے اکثر مفسر اس طرف چلے گئے کہ یہاں  ر قیم  کے معنی کتابت کے ہیں۔ یعنی ان کے غار پر کوئی کتبہ لگادیا گیا تھا۔ اس لئے کتبہ والے مشہور ہو گئے۔

 

الرقيم

لیکن اگر انہوں نے تورات کی طرف رجوع کیا ہوتا تو معلوم  ہو جا تا کہ  الر قیم  وہی لفظ ہے ، جسے تورات میں  "راقیم"    کہا گیا ہے، اور یہ في الحقیقت ایک شہر کا نام تھا۔ جو آگے چل کر    "پیٹرا " کے نام سے مشہور ہو گیا۔ اور عرب اسے   "بطرا" کہنے لگے۔ عالمگیر جنگ کے بعد آثار قدیمہ کی تحقیقات کے جو نئے نئے گوشے کھلےہیں،  ان میں ایک   پیٹرا بھی ہے۔ اور اس کے انکشافات نے بحث و نظر کا ایک نیا مید ان مہیا کر دیا ہے۔ جزیرہ نمائے سینا اور خلیج عقبہ سے سیدھے شمال کی طرف بڑھیں تو پہاڑی سلسلے متوازی شروع ہو جاتے ہیں۔ اور سطح زمین بلندی کی طرف اٹھنے لگتی  ہے۔ یہ علاقہ نبطی قبائل کا علاقہ تھا۔ اور اس کی ایک پہاڑی سطح پر  راقیم  نامی شہر آباد تھا۔ دوسری صدی عیسوی میں جب رومیوں نے شام اور فلسطین کا الحاق کر لیا،  تو یہاں کے شہروں کی طرح راقیم نے بھی ایک رومی نو آبادی کی حیثیت اختیار کر لی اور یہی زمانہ ہے جب پیڑا کے نام سے اس کے عظیم الشان مندروں اور تھیڑوں کی شہرت دور دور تک پہنچی۔640 عیسوی  میں جب  مسلمانوں  نے یہ علاقہ فتح کیا تو راقیم کا نام بہت کم زبانوں پر رہا۔  یہ رومیوں کا پیٹرا ، اور عربوں کا بطر ا تھا۔

متعلقہ عنوانات