اصحاب کہف کی تفصیلات: پندرہویں قسط
ہیروڈوٹس نے اس جنگ کی سرگزشت پوری تفصیل کے ساتھ بیان ہے۔اور اس کی بعض تفصیلات نہایت دلچسپ اور اہم ہیں ،لیکن یہ موضوع ہمارا نہیں۔ وہ کہتا ہے۔ سائرس کی فتح مندی ایسی عجیب اور معجزانہ تھی کہ پٹیریا کے معرکوں کے بعد صر ف چودہ دن کے اندر لیڈیا کا مستحکم دارالحکومت مسخر ہو گیا اور کرو ئسس ایک جنگی قیدی کی حیثیت سے سائرس کے آگے سر نگوں کھڑاتھا۔
اب تمام ایشیائے کو چک، بحر شام سے لے کر کر اسود تک اس کے زیر نگیں تھا۔ وہ برابر بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ مغربی ساحل تک پہنچ گیا ۔ قدرتی طور پر اس کے قدم یہاں پہنچ کر اس طرح رک گئے جس طرح بارہ سو سال پہلے طارق کے قدم افریقہ کے شمالی ساحل پر رک جانے والے تھے۔ اس کے فتح مند قدموں کے لیے صحراؤں کی وسعتیں اور پہاڑوں کی بلندیاں رکاوٹ نہ ہو سکیں۔ اس نے فارس سے لے کر لیڈیا تک چودہ سو میل کا فاصلہ طے کر لیا تھا۔ لیکن سمندر کی موجوں پر چلنے کے لیے اس کے پاس کوئی سواری نہ تھی۔ اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو حد نظر تک پانی ہی پانی دکھائی دیتا تھا اور سورج اس کی لہروں میں ڈوب رہا تھا۔ یہ لشکر کشی جواسے پیش آئی، صریحاً مغرب کی لشکر کشی تھی کیوں کہ وہ ایران سے مغرب کی طرف چلا اور لیڈیا کے مغربی کنارے تک پہنچ گیا۔ یہ اس کے لیے مغرب الشمس کی آخری حد تھی۔
ایشیائے کو چک کا مغربی ساحل نقشہ میں نکالیے۔ آپ دیکھیں گے کہ تمام ساحل اس طرح کا واقعہ ہوا ہے کہ چھوٹے چھوٹے خلیج پیدا ہو گئے ہیں اور سمرنا کے قریب اس طرح کے جزیرے نکل آئے ہیں جنہوں نے ساحل کو ایک جھیل یا حوض کی کی شکل دے دی ہے ۔ لیڈیا کا دار الحکومت سارڈین مغربی ساحل کے قریب تھا۔ اور اس کا محل موجود ہ سمرنا سے بہت فاصلہ پرنہ تھا۔ پس جب سائرس سارڈین کی تسخیر کے بعد آگے بڑھا ہو گا تو یقیناً بحرایجین کے اس ساحلی مقام پر پہنچا ہو گا جو سمرنا کے قرب وجوار میں واقع ہے۔ یہاں اس نے دیکھا ہوگا کہ سمندر نے ایک جھیل کی سی شکل اختیار کر لی ہے۔ ساحل کی کیچڑ سے پانی گدلا ہو رہا ہے۔ اور شام کے وقت اس میں سورج ڈوبتا دکھائی دیتا ہے۔ اس صورت حال کو قرآن نے ان لفظوں میں بیان کیا۔
و جدها تغرب فی عين حمئۃ.(٨٢)
" اسے ایسا دکھائی دیا کہ سورج ایک گدلے حوض میں ڈوب رہا ہے ۔"
یہ ظاہر ہے کہ سورج کسی مقام میں بھی ڈوبتا نہیں لیکن ہم سمندر کے کنارے کھڑے ہو کر دیکھتے ہیں تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ایک سنہری تھالی آہستہ آہستہ سمندر میں ڈوب رہی ہے۔
دوسری لشکر کشی مشرق کی طرف تھی۔ چنانچہ ہیروڈوٹس اور ٹی سیاز دونوں اس کی مشرقی لشکر کشی کاذکر کرتے ہیں۔ جولیڈیا کی فتح کے بعد اور بابل کی فتح سے پہلے پیش آئی تھی۔ اور دونوں نے تصریح کی ہے کہ " مشرق کے بعض وحشی اور صحر انشیں قبائل کی سرکشی اس کا باعث ہوئی تھی۔ یہ ٹھیک ٹھیک قرآن کے اس ارشاد کی تصدیق ہے کہ
حتى إذا بلغ مطلع الشمس وجدها تطلع على قوم لم تجعل لهم من دونها سترا (۹۰)
"جب وہ مشرق کی طرف پہنچا تو اسے ایسی قوم ملی جو سورج کے لیے کوئی آڑ نہیں رکھتی تھی۔"
یعنی یہ خانہ بدوش قبائل تھے۔ اب یہ خانہ بدوش قبائل کون تھے ؟ان مورخین کی صراحت کے مطابق بکڑیا یعنی بلخ کے علاقہ کے قبائل تھے۔ نقشہ پر اگر نظر ڈالی جائے تو صاف نظر آجائے گا کہ بلخ ٹھیک ٹھیک ایران کے لیے مشرق اقصی کا حکم رکھتا ہے۔ کیوں کہ اس کے آگے پہاڑ ہیں اور انہوں نے راہ روک دی ہے۔ اس کا بھی اشارہ ملتا ہے کہ گیڈروسیا کے وحشی قبیلوں نے اس کی مشرقی سرحد میں بدامنی پھیلائی تھی۔ اور ان کی گو شمالی کے لیے اسے نکلنا پڑا۔ گیڈ روسیا سے مقصود وہی علاقہ ہے جو آج کل مکران کہلاتا ہے۔ اس سلسلہ میں ہندوستان کی طرف ہمیں کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ اس لئے قیاس کہتا ہے کہ مکران سے نیچے اس کے قدم نہیں اترے ہوں گے۔ اور اگر اترے ہوں گے تو دریائے سندھ سے آگے نہیں بڑھے ہو ں گے کیوں کہ دارا کے زمانے میں بھی اس کی جنوب مشرقی سرحد دریائے سندھ ہی تک معلوم ہوتی ہے۔
(ٹی سیاز (Ctesias)ایک یونانی تھا جو 398 قبل مسیح سے لے کر 414 قبل مسیح تک شہنشاہان پارس کا دربار طبیب رہا اور اس زمانہ کے کچھ عرصہ بعد اس نے اپنی مشہور خ لکھی۔ بعد کے یونانی مورخوں نے اس کے بعض بیانات شک کی نگاہ سے دیکھے ہیں۔ اور اس لئے اسے استناد کا وہ درجہ حاصل نہ ہو سکا جو ہیر ودوٹس (المتولد ۸۴ ق م) کی تاریخ کو حاصل ہوا ہے ۔ مگر موجودہ زمانے کے محققین تاریخ کا ایسا خیال نہیں ہے۔)
تیسری لشکر کشی اس نے ایسے علاقہ تک کی جہاں یاجوج ماجوج کے حملے ہوا کرتے تھے۔ یہ یقینا اس کی شمالی مہم تھی جس میں وہ بحر خزر (کیسپیئن سی ) کو داہنی طرف چھوڑ تا ہوا کوہ قاف (Caucasus) کے سلسلہ کوہ تک پہنچ گیا تھا۔ اور وہاں اسے ایک درہ ملا تھا جو دو پہاڑی دیواروں کے در میان تھا۔ اس راہ سے یاجوج ماجوج آ کر اس طرف کے علاقے میں تاخت و تاراج کیا کرتے تھے۔ اور یہیں اس نے سد (دیوار ) تعمیر کی۔