اصحاب کہف کی تفصیلات: گیارہویں قسط

 ۵۵۹ قبل از مسیح میں ایک غیرمعمولی شخصیت غیر معمولی حالات کے اندر ابھری اور اچانک تمام دنیا کی نگاہیں اس کی طرف اٹھ گئیں۔ یہ پارس کے ایکے می نیز خاندان کا ایک نوجوان گورش تھا۔ جسے یونانیوں نے سائرس ،عبرانیوں نے خورس اور عربوں نے کیخسرو کے نام سے پکارا۔ اسے پہلے پارس کے تمام امیروں نے اپنا فرمانروا تسلیم کر لیا۔ پھر بغیر کسی خونریزی کے میڈیا کی مملکت پر فرمانروا ہو گیا۔

اور اس طرح دونوں مملکتوں نے مل کر ایران کی ایک عظیم الشان شہنشاہی کی صورت اختیار کر لی۔

(دارا نے بے ستون کے کتبہ میں اپنا سلسلہ ہنحانش نامی بادشاہ سے ملایا ہے ۔ یہی ہنحانش یونانی میں Achaemenes ہو گیا۔ ہیروڈوٹس کی روایت کے مطابق یہ سائرس کا پڑدادا تھا۔ یعنی ایکے منی نیز سے چائش پش  پیدا ہوا۔ اس سے کم بی سیز (کمبوچیہ ، یا کیقباد) اول اور کم بی سیز سے سائرس نے اپنے بڑے لڑکے کانام بھی کم بی سیز  رکھا تھا۔)

 

پھر اس  سائرس (گورش، خورس، کیخسرو)کی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا۔ وہ فتوحات نہیں جو ظلم و قہر کی خون ریزیوں کے ذریعہ حاصل کی جاتی تھیں۔ بلکہ انسانیت و عدالت کی فتوحات جو تمام تر اس لئے تھیں کہ مظلوم قوموں کی داد رسی اور پامال   ملکوں    کی دستگیری ہو۔ چنانچہ ابھی بارہ سال کی مدت بھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ بحر اسود سے لے کر بکڑیا(بلخ) تک ایشیاء کی تمام عظیم الشان مملکتیں اس کے آگے سر بہ سجود ہو چکی تھیں۔

دنیا کی تمام غیر معمولی شخصیتوں کی طرح سائرس کے ابتدائی حالات نے بھی ایک پراسرار افسانہ کی نوعیت اختیار کرلی ہے اور ہمیں اس کی جھلک شاہ نامہ کے افسانوں میں صاف صاف نظر آجاتی ہے۔ اس کا اٹھان زندگی کے عام اور معمولی حالات میں نہیں ہوا بلکہ ایسے عجیب حالات میں جو ہمیشہ پیش نہیں آتے اور جب کبھی پیش آتے ہیں تو یہ قدرت کی ایک غیر معمولی کرشمہ سنجی ہوتی ہے۔ قبل اس کے، کہ وہ پیدا ہو،اس کے نانا  اسٹیاگس Astyages نے اس کی موت کا سامان کر دیا تھا۔ لیکن اسے ایک حیرت انگیز طریقے سے بچالیا  گیا ۔ اور اس کی ابتدائی زندگی جنگوں اور پہاڑوں میں بسر ہوئی تھی  ۔ پھر ایک ایسا  وقت بھی  آ گیا   کہ اس کی غیر معمولی قابلیتیں اور اعلیٰ اخلاق و خصائل نے اسے ملک میں نمایاں کر  دیااور اس کی خاندانی شخصیت و شناخت  پہچان  لی گئی۔ اب اسے پورا موقع حاصل تھا کہ اپنے دشمنوں سے انتقام لے۔ لیکن اسے ایک لمحہ کے لیے بھی اس کا خیال نہیں گزرا۔ حتی کہ خود اسٹیا کس کی زندگی بھی اس کے ہاتھوں میں محفوظ رہی۔

تخت نشینی کے بعد سب سے پہلی جنگ جواسے پیش آئی وہ لیڈیا (Lydia) کے بادشاہ کروئسیس ( Croesus) سے تھی۔ لیکن تمام مورخین متفق ہیں کہ حملہ کر وئسیس کی طرف سے ہوا تھا۔ اور اس نے سائرس کو دفاع پر مجبور کر دیا تھا۔ لیڈیا سے مقصود ایشیائے کو چک (Asia Minor)  کا مغربی و شمالی حصہ ہے  جو یونانی تمدن کا ایشیائی مرکز بن گیا تھا۔ اور اس کی حکومت بھی اپنے تمام خصائص میں ایک یونانی حکومت تھی۔ جنگ میں سائرس فتح یاب ہوا لیکن رعایا کے ساتھ کسی طرح کی بد سلوکی نہیں کی گئی۔ انہیں محسوس بھی نہیں ہوا کہ ملک ایک انقلاب یا  جنگ کی حالت سے گزر رہا ہے۔ البتہ  کرونس کی نسبت یونانی روایت یہ ہے کہ اس کے عزم وہمت کی آزمائش کے لیے سائرس نے حکم دیا تھا کہ ایک  چتا تیار کی جائے اور اسے جلا دیا جائے۔ لیکن جب اس نے دیکھا کہ وہ مردانہ وار چتا پر بیٹھ گیا ہے  تو فوراً اس کی جان بخشی کر دی۔ اور اس نے بقیہ زندگی عزت احترام کے ساتھ بسر کی۔ اس جنگ کے بعد اسے مشرق کی طرف متوجہ ہونا پڑا۔ کیونکہ گیڈ روسیا (مکران) اور بکریا( بلخ) کے وحشی قبائل نے سرکشی کی تھی۔

 یہ مہم ۵۴۰ اور ۵۴۵ قبل مسیح کی درمیانی مدت میں واقع ہوئی ہو گی۔ تقریبا یہی زمانہ ہے جب باشندگان بابل نے اس سے درخواست کی  تھی  کہ بیل شازار (Belshazzar) کے مظالم سے انہیں نجات دلائے ۔  نینوا کی تباہی نے ایک نئی بابلی شہنشاہی کی بنیادیں استوار کر دی تھیں اور بنو کدنزار (بخت نصر) کی قاہرانہ فتوحات نے تمام مغربی ایشیاء کو مسخر کر لیا تھا۔ اس کا حملہ بیت المقدس تاریخ کا ایک انقلاب انگیز واقعہ ہے۔ وہ صرف بادشاہوں کو مسخر ہی نہیں کر تا تھا بلکہ قوموں کو غلام بنا تا اور ملکوں کو تباہ کر ڈالتا تھا۔ لیکن اس کے مرنے کے بعد کوئی ایسی شخصیت پیدا نہیں ہوئی جو اس کی جنگ جو یا نہ قوتوں کی جانشیں ہوتی۔ اس کے بعد بابل کے مندروں کے پجاریوں نے (جو ملک میں سب سے زیادہ اثر و مقبولیت رکھتے تھے ) نابونیدس(Nabonidus) کو تخت نشین کیا تھا۔ لیکن اس نے حکمت کا تمام کاروبار بیل شازار کے ہاتھ چھوڑ دیا  جو ظلم و عیاشی کا مجسمہ تھا ۔ اس کے  بارے میں  حضرت دانیال علیہ السلام کے صحیفہ میں ہم پڑھتے ہیں کہ بیت المقدس کے ہیکل کے مقدس پیالوں میں اس نے شراب پی تھی۔ اور ایک غیبی ہاتھ نے نمایاں ہو کر " منے منے تقیل و فرسین "کے الفاظ دیوار پر لکھ دیے تھے۔(صحیفۂ  دانیال ۱:۵)

(اس نوشتۂ دیوار کا مفہوم یہ ہے کہ تجھے کسوٹی پر پرکھا گیا ، اور تُو ناقص نکلا ، لہذا تجھ سے تخت لے کر تیرے دشمنوں کو دے دیا جائے گا۔)

جاری ہے۔

متعلقہ عنوانات