اصحاب کہف کی تفصیلات: آٹھویں قسط

اس سلسلے کی پچھلی اقساط میں مولانا ابو الکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ نے سورۃ کہف میں بیان کردہ اصحابِ کہف کا ذکر اور تفسیر بیان کی تھی ۔ اب  یہ تحریر آگے بڑھتے ہوئے   سورۃ کہف ہی میں مذکور  ایک اور اہم  شخصیت ، ذوالقرنین کے تذکرے تک پہنچ گئی ہے۔ 

 

سورۃ کہف میں تیسرا واقعہ جو بیان کیا گیا ہے وہ ذوالقرنین کا ہے۔ کیوں کہ لوگوں نے اس بارے میں سوال کیا تھا۔ تمام مفسرین متفق ہیں کہ سوال یہودیوں کی جانب سے تھا۔ اگر چہ غالبا ً یہ سوال مشرکینِ مکہ کی زبانی ہوا۔  کیوں کہ یہ سورت مکی ہے ۔  (یعنی مدینہ اور خیبر کے یہودیوں نے  ان سوالوں کو مشرکینِ مکہ کے حوالے کیا اور مشرکینِ مکہ نے ان سوالوں کے جواب بارگاہِ رسالت سے حاصل کر کے واپس یہودیوں تک پہنچا دیے۔)

قرآن نے ذوالقرنین کی نسبت جو کچھ بیان کیا ہے اس پر بہ حیثیت مجموعی نظر ڈالی جائے تو حسب ذیل امور سامنے آ جاتے ہیں۔

 

اولاً ،  جس شخصیت کی نسبت پوچھا گیا ہے۔ وہ یہودیوں میں ذوالقرنین کے نام سے مشہور تھا یعنی ذوالقرنین کالقب خود قرآن نے تجویز نہیں کیا ہے بلکہ یہ  پوچھنے والوں کا مجوزہ ہے۔ کیوں کہ فرمایا"

"ويسئلونك عن ذي القرنين "

ثانیا ً ، اللہ نے اپنے فضل و کرم سے اسے حکمرانی عطافرمائی تھی۔ اور ہر طرح کا ساز و سامان جو ایک حکمران کے لیے ہو سکتا تھا۔ اس کے لیے فراہم ہو گیا تھا۔

 

 ثالثا ً، اس کی بڑی مہمیں تین تھیں۔ پہلے مغربی ممالک فتح کئے ، پھر مشرقی  ممالک ، اور پھر ایک ایسے مقام تک فتح کر تا ہوا چلا گیا جہاں پہاڑی درہ تھا اور اس کی دوسری طرف یا جوج اور ماجوج آ کر لوٹ مار مچایا کرتے تھے۔

 

 رابعاً ، اس نے وہاں ایک محکم سد (دیوار )  تعمیر کر دی اور یاجوج و ماجوج کی راہ  بند ہوگئی۔

 

 خامساً ،  وہ ایک عادل حکمران تھا۔ جب وہ مغرب کی طرف فتح کر تا ہوا ،  دُور تک چلا گیا  ،تو اسے  ایک قوم ملی۔ جس نے خیال کیا کہ دنیا کے تمام بادشاہوں کی طرح ذوالقرنین بھی ظلم و تشدد کرے گا۔ لیکن ذوالقرنین نے اعلان کیا کہ بے گناہوں کے لیے کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ جولوگ نیک عملی کی راہ چلیں گے۔ ان کے لیے ویسا  ہی  اجر بھی ہو گا۔ البتہ ڈرنا انہیں چاہیے جو جرم  و  بد  عملی کا ارتکاب کرتے ہیں۔

 

ساد ساً ،  وہ خدا پرست اور راست باز انسان تھا اور آخرت کی زندگی پر یقین رکھتا تھا۔

 

 سابعاً، وہ نفس پرست بادشاہوں کی طرح طامع اور حریص نہ تھا۔ جب ایک قوم نے کہا کہ یاجوج اور ماجوج ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں،  آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک سد  (دیوار) تعمیر کر دیں۔ ہم آپ کو خراج دیں گے۔ تو اس  نے کہا

" ما  مَکّنی فیہ ربِّی خیر "

 یعنی ، جو کچھ خدا نے مجھے دے رکھا ہے وہی  میرے لئے بہتر ہے۔ میں تمہارے خراج کا طامع نہیں۔ یعنی میں خراج کی طمع سے کام نہیں  کروں گا بلکہ  اپنا فرض سمجھ کر یہ کام سر انجام دوں گا۔

 

تاریخ قدیم کی جس شخصیت میں یہ تمام اوصاف  و اعمال پائے جائیں وہی ذوالقرنین ہو سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کون شخص تھا؟

سب سے پہلا حل طلب مسئلہ جو مفسرین کے سامنے آیا وہ اس کے لقب کا تھا ،  عربی میں بھی اور عبرانی میں بھی "قرن" کے صاف معنی "سینگ"  کے ہیں۔ پس ذوالقرنین کا مطلب ہوا  ، "دو سینگوں والا" ۔ لیکن چوں کہ تاریخ میں کسی ایسے بادشاہ کا سراغ نہیں ملتا جس کا ایسا لقب رہاہو۔ اس لیے مجبوراً  "قرن"کے معنوں  میں طرح طرح کے تکلفات کرنا پڑے۔ پھر چوں کہ فتوحات کی وسعت اور مغرب و مشرق کی حکمرانی کے لحاظ سے سکندر مقدونی کی شخصیت سب سے زیادہ مشہور رہی ہے۔ اس لئے متاخرین کی نظریں اس کی طرف اٹھ گئیں۔ چنانچہ امام رازی نے سکندر ہی کو ذوالقرنین قرار دیا ہے۔ اور اگر چہ حسب عادت وہ تمام اعتراضات نقل کردیے ہیں جو اس تفسیر پر وارد ہوتے ہیں۔ لیکن پھر حسب عادت ان کے بے محل جوابات پر  مطمئن بھی ہوگئے ہیں۔ حالانکہ کسی اعتبار سے بھی قرآن کا ذوالقرنین ، سکندر مقدونی نہیں ہو  سکتا۔ نہ تو  اسکندر مقدونی  خدا پرست تھا، نہ عادل تھا،  نہ مفتوح قوموں کے لیے فیاض تھا اور نہ  اس نے کوئی سد (دیوار) ہی  بنائی ۔ بہر  حال  ، مفسرین ذوالقرنین کی شخصیت کا سراغ نہ لگا  سکے۔

جاری ہے۔

متعلقہ عنوانات