اصحاب کہف کی تفصیلات: اٹھارہویں قسط

تمام مورخ بالا تفاق شہادت دیتے ہیں کہ اس کے احکام و قوانین ایسے ہی تھے۔ وہ مفتوحہ ممالک کے باشندوں کے لیے سر تاسر شفقت ومرحمت تھا۔اس نے ان تمام بوجھل ٹیکسوں اور خراجوں سے رعایا کو نجات دے دی، جو اس عہد کے تمام حکمران وصول کیا کرتے تھے۔ اس نے جس قدر احکام و فرامین نافذ کئے وہ زیادہ سے زیادہ نرم اور زیادہ سے زیادہ ہلکے تھے۔

یہ تو صرف اس کی مغربی فتح مندی کی سرگزشت تھی۔ اب دیکھنا چاہیے کہ اس کے اعمال کی عام رفتار کیسی رہی؟ اور قرآن کا بیان کردہ  وصف کہاں تک اس پر راست آتا ہے ۔۔

لیکن قبل اس کے کہ ہم یونانی مورخوں کی شہادتوں پر متوجہ ہوں ، یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یونانی مورخ سائرس کے ہم قوم نہیں تھے، ہم وطن نہیں تھے اور ہم مذہب نہیں تھے۔اتنا ہی نہیں بلکہ دوست بھی نہیں تھے۔ سائرس نے لیڈیا کو شکست دی تھی۔ اور لیڈیا کی شکست یونانی قومیت یونانی تہذیب اور سب سے زیادہ  اہم یہ کہ خود  یونانی مذہب کی شکست تھی ۔ پھر سائرس کے جانشینوں نے براہ  راست یونانیوں کو زیر کیا تھا۔ اور ہمیشہ کے لیے دونوں قومیں ایک دوسرے کی حریف ہو گئی تھیں۔

ایسی حالت میں قدرتی طور پر یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ یونانی دماغ اپنے حریف کی مدحت سرائی کا شائق ہو گا۔ تاہم ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں سے ہر مورخ اس کی غیر معمولی عظمتوں اور ملکوتی صفتوں کی مدحت سرائی میں رطب  اللسان ہے اور اس لئے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس کے محاسن نے ایک ایسے عالم گیر اعتراف و تاثر کی نوعیت اختیار کر لی تھی کہ دوست دشمن کا کوئی امتیاز باقی نہیں رہا تھا۔ سب کے دلوں میں ان کا اعتقاد پیدا ہو گیا تھا۔ سب کی زبانوں پر ان کی مدحت سرائی تھی۔ اور محاسن وہی ہیں جن کی حریفوں کو بھی شہادت دینی پڑے۔ یعنی :

وملیحۃُ  شھدت بہا  ضراتہا

 والفضل ما شھَدت بہ الاعداء

"اور خوبصورتی یہ ہے کہ سوکنیں بھی اس کی گواہی دیں اور فضیلت تو وہ ہے جس کی دشمن بھی شہادت دیں۔"

زینوفن لکھتا ہے:۔ "سائرس ایک نہایت دانش مند، سنجیدہ اور ساتھ ہی رحم دل فرمانرواتھا۔ اس کی شخصیت ہر طرح کے شاہی اوصاف اور حکیمانہ فضائل کا ایک اعلی ترین نمونہ تھی۔ یہ بات عام طور پر تسلیم کر لی گئی ہے کہ اس کی شوکت و حشمت سے کہیں زیادہ اس کی مالی حوصلگی اور سیر چشمی تھی۔ اور اس کی فیاضی اور رحم دلی اپنی کوئی دوسری مثال نہیں رکھتی ۔ انسان کی خدمت اور ہمدردی اس کی شاہانہ طبیعت کاسب سے بڑا جو ہر تھا۔ وہ ہمیشہ اس فکر میں رہتا تھا کہ مصیبت زدہ انسانوں کی خبر گیری کرے  اور مظلوموں کو ظلم  سے  نجات دلائے۔ درماندہ انسانوں کا ہاتھ پکڑے ،غم زدوں کے دکھ درد میں شریک ہو۔ پھر ان تمام عالی صفتوں کے ساتھ عاجزی اور انکساری اس کے حسن و کمال کا سب سے بڑا زیور تھی۔ اس نے ایک ایسے تخت پر بیٹھ کر ، جس کے آگے تمام قوموں کے سر جھک گئے تھے۔ اور ایک ایسے خزانے کامالک ہو کر جس میں تمام دنیا کی دولت سمٹ آئی تھی۔ کبھی گوارا نہیں کیا کہ فخر و غرور کو اپنے دماغ میں جگہ دے  ۔

ہیروڈوٹس لکھتا ہے:۔

"وہ ایک نہایت ہی مخیر پادشاہ تھا۔ اسے دنیا کے تمام بادشاہوں کی طرح دولت جمع کرنے کی حرص نہیں تھی۔ بلکہ وہ  جو د و  سخاوت کا  شوق رکھتا  تھا۔ وہ کہتا تھا  کہ دنیا کی سب سے بڑی دولت اس بات میں ہے کہ نوع انسانی کی بھلائی کا موقع ملے  اورمظلوموں کی داد رسی ہو۔

ٹی سیاز لکھتا ہے :۔

اس کا عقیدہ یہ تھا کہ دولت بادشاہوں کے ذاتی عیش و آرام کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ اس لئے ہے کہ رفاہ عام کے کاموں میں خرچ کی جائے اور ماتحتوں کو اس سے فیض پہنچے۔ چنانچہ اس کی اس فیض رسانی نے اس کی تمام رعایا کے دل اس کے ہاتھوں میں دے دیئے تھے۔ وہ اس کے لیے خوشی خوشی اپنی گردنیں کٹوادیتے ۔"

سب سے زیادہ نمایاں بات جوان تمام مورخوں کے صفحات پر ملتی ہے وہ سائرس کی شخصیت کی غیر معمولی نمود ہے۔ سب کہتے ہیں کہ وہ جس عہد میں پیدا ہوا  ، در حقیقت اس کی مخلوق نہیں تھا  بلکہ اپنے عہد سے بہت آگے کا فرد تھا ۔ اس کی  ایک بالا  تر شخصیت تھی۔ جسے قدرت نے اپنا کرشمہ دکھانے کے لیے نمودار کر  دیا تھا۔ دنیا کے کسی حکیم  ، کسی دانا نے اس کی تربیت نہیں کی۔وقت کے متمدن ملکوں میں سے کسی ملک میں اس کی پرورش نہیں ہوئی۔ وہ محض قدرت کا پروردہ تھا۔ اور قدرت ہی کے ہاتھوں نے اسے اٹھایا تھا۔ وہ فارس کے مشرقی پہاڑوں کا چرواہا تھا۔ تاہم یہ کیسی عجیب بات ہے کہ یہی  چرواہا جب دنیا کے سامنے آیا  تو  حکمرانی کا سب سے بڑا جلوہ ، دانش کا سب سے بڑا پیکر اور فضیلت کا سب سے بڑا نمونہ ، اسی سائرس  کی صورت میں  ان کے سامنے تھا۔

متعلقہ عنوانات