مضمون

اقبال اور تصوف

رابرٹ فراسٹ کا زندگی سے جھگڑا ایک پریمی کا تھا۔ کچھ ایسا ہی جھگڑا اقبالؔ کا تصوف سے ہے۔ شاید عالم خوند میری نے جب اقبالؔ کے یہاں تصوف کی کشش اور اس سے گریز کا ذکرکیا تھا تو ان کے ذہن میں بھی یہی نکتہ تھا۔ بہر حال یہ طے ہے کہ اقبال کو تصوف سے دلچسپی ورثے میں ملی تھی۔ یعنی صوفیوں سے ...

مزید پڑھیے

اردو تنقید ایک جائزہ

جناب وائس چانسلر صاحب، صدر شعبۂ ا ردو، مہمانان گرامی، خواتین و حضرات، حالیؔ کا مقدمہ شعر و شاعری ۱۸۹۳ء میں شائع ہوا۔ مقدمہ ہماری تنقید کا پہلا صحیفہ ہے۔ مقدمہ سے پہلے محمد حسین آزادؔ کے افکار اور سر سید کے تہذیب الاخلاق میں بعض مضامین کی اہمیت بھی مسلم ہے۔ آزادؔ اور حالیؔ ...

مزید پڑھیے

پورےغالب

ہماری تنقید اب تک ادب کے کسی نہ کسی پابند تصور سے آزاد نہیں ہو سکی ہے، گو حال میں اس تصور سے بلندی اور ادب کی اپنی خصوصیت کو واضح کرنے کی کوششیں ملنے لگی ہیں۔ ادب میں اخلاق، ادب میں مذہبی تصورات، ادب میں تصوف، ادب میں سماجی قدریں، ادب میں انسان دوستی کے ہر نظریے سے یہ ظاہر ہوتا ...

مزید پڑھیے

اقبال کا کارنامہ اردو نظم میں

نظم کی اصطلاح پہلے تو شاعری کے لئے استعمال ہوتی تھی اور اس کے مقابلے میں نثر کو رکھا جاتا تھا۔ پھر یہ غزل کے علاوہ شاعری کی دوسرے اقسام کے لئے استعمال ہونے لگی مگر جدید تناظر میں نظم وہ صنف سخن ہے جو نہ قصیدہ ہے نہ مثنوی، نہ مرثیہ، نہ شہر آشوب، نہ واسوخت، نہ رباعی۔ ایک صنف سخن کی ...

مزید پڑھیے

ادب میں جدیدیت کا مفہوم

جدیدیت کا ایک تاریخی تصور ہے، ایک فلسفیانہ تصور ہے اور ایک ادبی تصور ہے۔ مگر جدیدیت ایک اضافی چیز ہے، یہ مطلق نہیں ہے۔ ماضی میں ایسے لوگ ہوئے ہیں جو آج بھی جدید معلوم ہوتے ہیں۔ آج بھی ایسے لوگ ہیں جو در اصل ماضی کی قدروں کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور آج کے زمانے میں رہتے ہوئے ...

مزید پڑھیے

مجاز، رومانیت کا شہید

اپنے ہم عصروں میں جو مقبولیت مجازؔ کو حاصل ہوئی وہ کم لوگوں کے حصے میں آئی ہے۔ مجازؔ نے تقریباً پچیس سال شاعری کی۔ اس طویل عرصے کو دیکھتے ہوئے ان کا مجموعۂ کلام بہت مختصر ہے۔ ان کی بہترین نظمیں بیشتر ۱۹۳۵ء اور ۱۹۴۵ء کے درمیان کی ہیں۔ ادھر چار پانچ سال میں انھوں نے مشکل سے کچھ ...

مزید پڑھیے

لکھنؤ اور اردو ادب

ہر دور کا ادب اس دور کی تہذیب کا آئینہ ہوتا ہے، لکھنؤ کو اٹھارویں صدی کے وسط سے لے کر انیسویں صدی کے آخر تک شمالی ہند کی تہذیب میں ایک نمایاں درجہ حاصل رہا ہے۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد دہلی کی مرکزی حیثیت کمزور ہو گئی مگر اس کے باوجود اس مرکز میں ایک تہذیبی شمع جلتی رہی۔ یہ شمع ...

مزید پڑھیے
صفحہ 77 سے 77