آئینِ پاکستان: آرٹیکل 63 اے کیا ہے؟ سپریم کورٹ اس کے بارے میں کیا فیصلہ کرے گی؟

پاکستان کی سیاست میں آئینِ پاکستان کی دو شقوں کا کئی برسوں سے چرچا ہے۔ وہ دو شقیں( آرٹیکلز) 62 اور 63 ہیں۔ آج سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 63 اے یا شق 63(الف) سے متعلق تشریح کا مقدمہ زیر سماعت ہے۔ زیرِ سماعت مقدمہ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی ایک رولنگ کے خلاف سنا جارہا ہے۔ فریقین آرٹیکل 63 اے کی مختلف تشریحات کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آرٹیکل 63 اے آخر ہے کیا۔۔۔ ہم آئینِ پاکستان سے اس شق کو ہو بہو یہاں نقل کررہے ہیں:

یاد رہے کہ یہ شق آئینِ پاکستان کے حصہ سوم کے باب دوم میں شامل ہے۔ یہ باب مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) سے متعلق شقوں پر مشتمل ہے۔ ان میں دو شقیں 62 اور 63 سب سے زیادہ اہم جو مجلس شوریٰ یعنی پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے اہلیت اور نااہلیت سے متعلق ہیں۔ شق 63 کی ذیلی شق '63 (الف)' یا آرٹیکل 63 اے آج کل زیر بحث ہے۔

آرٹیکل 63 اے (متن)

یہ آرٹیکل رکن اسمبلی کے انحراف کی بنیاد پر نااہلیت کو زیر بحث لاتی ہے۔

63-الف (1): اگر کسی ایوان میں کسی تنہا سیاسی جماعت پر مشتمل پالیمانی پارٹی کا کوئی رکن۔۔۔۔

(الف) اپنی سیاسی جماعت کی رکنیت سے مستعفی ہوجائے یا کسی دوسری پارلیمانی پارٹی میں شامل ہوجائے؛ یا

(ب) اس پالیمانی پارٹی کی طرف سے جس سے اس کا تعلق ہو، جاری کردہ حسب ذیل سے متعلق کسی ہدایت کے برعکس ایوان میں ووٹ دے یا ووٹ دینے سے اجتناب کرے۔۔۔۔

(اول) وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخاب؛ یا

(دوم) اعتماد یا عدم اعتماد کے ووٹ؛ یا

(سوم) کسی مالی بل یا دستوری (ترمیمی) بل؛

تو پارٹی کا سربراہ تحریری طور پر اعلان کرسکے گا کہ وہ اس سیاسی جماعت سے منحرف ہوگیا ہے، اور پارٹی کا سربراہ اعلان کی ایک نقل افسر صدارت کنندہ اور چیف الیکشن کمشنر کو بھیج سکے گا اور اسی طرح اس کی ایک نقل متعلقہ رکن کو بھیجے گا:

مگر شرط یہ ہے کہ اعلان کرنے سے پہلے، پارٹی کا سربراہ مذکورہ رکن کو اس بارے میں اظہارِ وجوہ کا موقع فراہم کرے گا کیوں کہ نہ اس کے خلاف مذکورہ اعلان کردیا جائے۔

تشریح: "پارٹی کا سربراہ" سے کوئی شخص، خواہ کسی بھی نام سے پکارہ جائے، پارٹی کی جانب سے جیسا کہ مظہرہ ہو مراد ہے۔

 

مختصر وضاحت:

آئینِ پاکستان کے مذکورہ بالا آرٹیکل 63 اے کے تحت  کسی رکن پارلیمنٹ کو منحرف ہونے پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔

وہ اس صورت میں کہ اگر رکنِ پارلیمنٹ وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے اپنی متعلقہ پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ ہدایت کے خلاف ووٹ دیتا ہے یا عدم اعتماد کا ووٹ نہیں دیتا تو اس کی رکنیت ختم کی جاسکتی ہے۔

آئین کے اس آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں پارٹی سربراہ کو تحریری طور پر اعلان کرنا ہوگا کہ فلاں  رکن پارلیمنٹ منحرف ہوگیا ہے۔ تاہم ریفرنس دائر کرنے سے پہلے پارٹی سربراہ ’منحرف رکن کو وضاحت کا موقع فراہم کرنے لیے 'شوکاز نوٹس' (اظہارِ وجوہ) جاری کرے گا۔

اگر پارٹی کا سربراہ متعلقہ رکن کی وضاحت سے مطمئن نہیں ہوتا تو پھر پارٹی سربراہ نااہلیت کا اعلامیہ سپیکر کو بھیجے گا اور سپیکر وہ اعلامیہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجے گا۔

الیکشن کمیشن ریفرنس موصول ہونے کے 30 دن میں اس پر فیصلہ دینا ہوگا۔ آرٹیکل کے مطابق اگر چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے ریفرنس کے حق میں فیصلہ آجاتا ہے تو مذکورہ رکن ’ایوان (پارلیمنٹ) کا حصہ نہیں رہے گا اور اس کی نشست خالی ہو جائے گی۔

پھر آخر مسئلہ کیا ہے؟

اتنی واضح ہدایات کے باوجود سپریم کورٹ مین زیرِ سماعت مقدمے میں اصل نکتہ کیا ہے۔ آرٹیکل 63 اے کے ہوبہو الفاظ اوپر بیان کیے گئے ہیں۔ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی نے اپنی رولنگ میں اس آرٹیکل سے متعلق سپریم کورٹ کے 17 مئی 2022 کو سنائے گئے فیصلے کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ اس سارے تنازعے میں اصل بات 'پارٹی سربراہ' کی اصطلاح پر اختلاف ہے۔ آیا زیرِ بحث شق میں 'پارٹی سربراہ' سے مراد سیاسی جماعت کا سربراہ ہے یا پارلیمانی پارٹی کا سربراہ مراد ہے۔ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے مطابق چونکہ سپریم کورٹ کے اس شق کی وضاحت کے فیصلے میں 'پارٹی سربراہ' کا ذکر ہے۔ اس لیے ق لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین کے جاری کردہ ہدایات کے مطابق ق لیگ کے دس ارکان اسمبلی کے ووٹ کو مسترد کردیا گیا۔

پرویز الہٰی نے جو ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہے اس میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ آئین پاکستان میں آرٹیکل 63 اے میں 'پارلیمانی پارٹی ہیڈ' کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے ق لیگ کے صدر کے خط کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ق لیگ کے پارلیمانی ہیڈ کی ہدایت کو قابل قبول سمجھا جائے۔

سپریم کورٹ میں اس آرٹیکل سے متعلق دائر پٹیشن کی سماعت جاری ہے۔ دیکھتے ہیں کہ معزز جج صاحبان اس کا کیا فیصلہ کرتے ہیں۔

متعلقہ عنوانات