عقل و عشق اقبال کی شاعری میں


عشق وعقل کی کشمکش اردو اور فارسی شاعری کا پرانا مضمون ہے۔ عشقیہ شاعری میں عقل مصلحت اندیشی اور احتیاط کے معنی میں آتا ہے اور عشق اس والہانہ محبت کے معنی میں جو آداب مصلحت سے نا آشنا اور وضع احتیاط سے بیگانہ ہے۔ ظاہر ہے کہ دونوں چیزیں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتی۔عشق درآمد نہ درگفت سلام علیکعقل بروں شدز سر گفت سلام علیکمتصوفانہ شاعری میں عقل سے مراد ہے منطقی استدلال سے جس کے ذ ریعہ سے ظنی مظاہر کا ایک دھندلا سا تصور قائم ہوتا ہے، اور عشق سے مراد ہے جذبۂ باطن جس کی بدولت طالب تعینات کے پردوں کو ہٹا کر حقیقت کی بلا واسطہ معرفت حاصل کرنا ہے۔ عقل کی کوششوں کا ماحصل علم یا ’’خبر‘‘ ہے، یعنی ذہنی ادراک، اور عشق کی منزل معرفت یا ’’نظر‘‘ یعنی وجدانی مشاہدہ، اگر ہم عقل و ادراک سے حقیقت کے عقدے کو حل کرنا چاہیں تو تصورات کا ایک لا متنا ہی سلسلہ بن جاتا ہے۔ ہر تصور کی تشریخ کے لئے ایک نئے تصور کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ نیا تصور پھر ایک نئی تشریح کا محتاج ہوتا ہے۔ غرض یہ عقدہ کبھی حل نہیں ہوتا، بلکہ اور نئی نئی گتھیاں پڑتی چلی جاتی ہیں۔فلسفی راز حقیقت نتوانست کشودگشت راز دگرآں راز کہ افشامی کرداس عقدے کو حل کرنے کے یعنی وجود حقیقی کی معرفت حاصل کرنے کی صرف یہی صورت ہے کہ ہم ذوق شوق سے ریاضت جسمانی اور مجاہدۂ نفس کے مرحلے طے کرکے وہ نظر پیدا کریں جو ہمیں شاہد حقیقت کا جلوہ دکھاتی ہے۔آدمی دیداست باقی پوست استدیدآں باشد کہ دید دوست استجملہ تن را درگداز اندر بصردرنظر رو در نظر رو در نظراقبال نے عقل اور عشق کے تصورات صوفی شاعروں سے لے کر ان پرجدید فلسفۂ وجدانیت کا رنگ چڑھایا ہے اور اپنی جدت فکر سے ان کے تضاد کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔صوفی شعراء ’’ہمہ اوست‘‘ کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک حقیقی وجود صرف ذات الٰہی کا ہے۔ کائنات کا وجود محض ہمارے حواس ظاہری کا فریب ہے۔ اس لئے عقل جس سے ہمیں کائنات کا علم ہوتا ہے، ان کی نظرمیں کوئی قدر نہیں رکھتی، مگر جدید فلسفۂ وحدانیت، جس کا سب سے ممتاز نمائندہ فرانسیسی فلسفی برگسان ہے، عقل تصور کائنات کی عملی قدر کو تسلیم کرتا ہے۔ برگسان کہتا ہے انسان کے ذہن کا کام یہ ہے کہ حسّی وظائف کو حرکتی وظائف میں منتقل کردے، اس لئے جو تصور کائنات ذہن و حواس سے حاصل ہوتا ہے وہ عملی زندگی کے لئے ناگزیر ہے، لیکن یہ تصور حقیقت کا تصور نہیں ہے۔ حقیقت کی معرفت بغیر عقل اور معروض کا فرق مٹ جاتا ہے اور نفس انسانی بیگانگی کے پردوں کو ہٹا کر اس حقیقت کا جس کا وہ خود ایک جزو ہے بلاواسطہ محرم ہو جاتا ہے۔اقبال برگسان کی زبان سے کہتے ہیں،تابر تو آشکار شود راز زندگیخود را جدازشعلہ مثال شرر مکنبہر نظارہ جزتگہ آشنا میاربرمر زد بومِ خود چو غریباں گذر مکننقشے کہ بستۂ اوہامِ باطل استعقلے بہم رساں کہ ادب خوردۂ دل استاب اسی مضمون کو خود اقبال کی زبان سے سنئے،عقل نے ایک دن یہ دل سے کہابھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میںہوں مفسرِ کتاب ہستی کیمظہرِ شان کبریا ہوں میںدل نے سن کر کہا یہ سب سچ ہےپر مجھے بھی تو دیکھ کیا ہوں میںراز ہستی کو تو سمجھتی ہے اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میںہے تجھے واسطہ مظاہر سےاور باطن سے آشنا ہوں میںعلم تجھ سے تو معرفت مجھ سےتو خدا جو، خدا نما ہوں میںتو زمان ومکاں سے رشتہ بپاطائر سدرہ آشنا ہوں میںکس بلندی پہ ہے مقام مراعرش ربّ جلیل کا ہوں میںان اشعار سے عقل اور عشق کا وہ تصور جو اقبال کے ذہن میں ہے واضح ہو جاتا ہے۔عقل رازِ ہستی کو سمھتی ہے۔ یعنی مظاہر کی صورت میں اس کا بالواسطہ ادراک کرتی ہے اور عشق اسے آنکھوں سے دیکھتا ہے، یعنی حقیقت ہستی کا بلاواسطہ مشاہدہ کرتا ہے۔ عقل زبان و مکان کی پابند ہے اور یہ صرف مظاہر کے ادراک کی صورتیں ہیں۔ اس لئے عقل کے ذریعہ سے ہمیں صرف ’’علم‘‘ حاصل ہوتا ہے، عشق زمان ومکان کی حدود سے نکل کر اس عالم نا محدود میں پہنچ جاتا ہے، جہاں حقیقت مطلق بے حجاب نظر آتی ہے۔ اور یہ معرفت کا مقام ہے۔عقل کی منزل مقصود بھی ہستی مطلق کی معرفت ہے۔ وہ ’’خدا جو‘‘ ہے، لیکن اس کی جستجو بجائے خود ناتمام ہے۔ عشق ’’خدا نما‘‘ ہے یعنی راہ طلب میں عقل کی رہبری کرتا ہے اور اسے منزل تک پہنچا دیتا ہے۔ عقل اور عشق ایک دوسرے کے حریف نہیں بلکہ دراصل عشقِ عقل کا مرشد ہے۔اب ہم اقبال کے قصورعقل و عشق کے ان دونوں پہلوؤں یعنی ان کے اختلاف اور اتحاد کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔(۱)عقل کی کل کائنات ’’خبر‘‘ یعنی مظاہر کا علم ہے۔خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ نہیںاس کا ادراک صورت زمانہ اور حواسِ ظاہری کا پابند ہے، اس لیے وہ کعبۂ حقیقت سے نا آشنا اور صنم خانۂ مجاز کی پرستار ہے۔خرد زنجیری امروزودش استپرستار بتان چشم و گوش استصنم در آستیں پوشیدہ داردبرہمن زادۂ زنار پوش استعقل کا علم جو شاہدۂ حققت سے محروم ہے، ظن و گمان سے زیادہ نہیں۔ انسان کا دل محض گمان سے مطمئن نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یقین حاصل کرنے کے لئے بیچین ہے۔چوخس از موج ہر بادے کہ می آید زجارفتمدل من از گمانہادر خروش آمد یقینے دہکائنات کا سطحی علم بیکار ہے، جب تک انسان کی نظر اس کی تہ تک نہ پہنچ جائے،اگر بسینۂ ایں کائنات در نہ روینگاہ را بہ تماشا گذاشتن ستم استعقل کی بصارت کے ساتھ عشق کی بصیرت بھی شامل ہو تو کائنات جسے خود محرم راز کی تلاش ہے اپنے اسرار پنہاں آشکار کر دیتی ہے۔یہ کائنات چھپاتی نہیں ضمیر اپناکہ ذرے ذرے ہی ذوق آشکارائیکچھ اور ہی نظر آتا ہے کاروبار جہاںنگاہِ شوق اگر ہو شریک بینائیکائنات کی حقیقت معلوم کرنے کی جو لگن انسان کے دل میں ہے وہ اقبال کے فلسفۂ خودی کی رو سے محض نظری اہمیت نہیں بلکہ اخلاقی اور عملی اہمیت رکھتی ہے۔ انسان کا مقصدِ حیات یہ ہے کہ اپنی شخصیت کی توسیع اور تکمیل کرے اور اسے پائیدار اور لازوال بنائے۔ عقل کو اس مقصد کا احساس تک نہیں وہ تو کشمکشِ حیات کا دور سے تماشا دیکھتی ہے، مگر عشق جو پیغام خودی کا مخاطب اور محرم ہے، بے تائل کار زارعمل میں کود پڑتا ہے،بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشقعقل تھی محوِ تماشائے لبِ بام ابھیعشق فرمودۂ قاصد سے سبک گامِ عملعقل سمجھی ہی نہیں معنیٔ پیغام ابھیاس مقصد کے حاصل کرنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ انسان کائنات کی قوتوں کو تسخیر کرے اور زمانے کی قیود کو توڑ کر اپنی زندگی کو لازوال بنا دے۔حیات چیست جہاں اسیر جاں کردنتو خود اسیرِ جہانی کجا توانی کردتواز شمارِ نفس زندۂ نئی دانیکہ زندگی زشکستِ طلسم ایام استظاہر ہے کہ ’’ شکست طلسمِ ایام‘‘ قل کے بس کی بات نہیں، اس لئے کہ وہ تو اپنی فطرت کی روسے صورتِ زمان ومکان کی پابند ہے، یعنی اس پر مجبور ہے کہ عالم خارجی کے تصور کو مکان کے سانچے میں اور عالم داخلی کے ادراک کو زمانے کے سانچے میں ڈھالے۔ وہ مظاہر کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے دیکھتی ہے۔ اور آہستہ آہستہ ایک ایک قدم آگے بڑھاتی ہے۔ اسی لئے وہ کائنات کو نا محدود سمجھتی ہے اور اس کے احصاء سے عاجز ہے، ان قیود کو توڑ کے لازمان ولامکان کا مشاہدہ کرنے کے لئے عشق کی جرأت رندانہ درکار ہے۔عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تماماس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میںاس مطلب کو اقبال نے جاوید نامے میں ایک تمثیل کے پیرائے میں ادا کیا ہے، جب شاعر زندہ رود اپنے پیر طریقت مولانا روم کے ساتھ عالمِ علوی کی سیر کو جانا چاہتا ہے تو روح زمان و مکان جس کا نام زردان ہے ظاہر ہوتی ہے اور کہتی ہے کہ میں طلسم کائنات کی محافظ ہوں، اس طلسم کو وہی توڑ سکتا ہے جو صدق دل سے ’’لی مع اللہ وقت‘‘ کہے یعنی صرف عشق الٰہی کو توفیق سے زمانے کی حدود سے گذر کر اہدیت کی نا محدود فضا میں قدم رکھنا ممکن ہے۔گفت زردانم جہاں را قاہرمہر نہانم از نگہ ہم ظاہرممن حیاتم من مماتم من نشورمن حساب و دوزخ و فردوس و حوردر طلسم من اسیراست ایں جہاںاز دمم ہر لحظہ پیراست ایں جہاںلی مع اللہ ہر کراور دل نشستآں جوا نمردے طلسم من شکستگر تو خواہی من نہ ہاشم درمیاںلی مع اللہ بازخواں از عین جاںزردان سے آنکھ ملاتے ہی شاعر کے سامنے زمان ومکان کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے، تعینات کے پردے اٹھ جاتے ہیں اور عالم حقیقت بے حجاب نظر آنے لگتا ہے۔ یہ واردات قلب خود شاعر کی زندگی میں کایا پلٹ کر دیتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس عالم میں مر کر ایک اور عالم میں پیدا ہوا ہے۔ وہ اپنے جسم و روح میں ایک عجیب لطافت اور اپنی چشم باطن میں ایک نئی بصیرت پاتا ہے۔درنگاہِ ادنمی دانم چہ بوداز نگاہم ایں کہن عالم ربودمردم اندر کائنات رنگ و بوزادم اندر عالم بے ہائے وہورشتۂ من زاں کہن عالم گستیک جہانِ تازہ آمد بدستاز زیانِ عالمے جانم تپیدتاو گر عالم زخاکم بردمیدتن سبک تر گشت و جاں ہشیار ترچشم دل بنیندۂ و بیدار تریہی وہ کیفیت ہے، جس میں شاعر بے اختیار کہہ اٹھتا ہے،با مروز اسیرم نہ بہ فردا نہ بدوشدنشیبے نہ فراز سے نہ مقامے دارمدر جہانِ دل مادورِ قمر پیدا نیستانقلابیست دلے شام و سحر پیدانسیتبہ گوشِ من رسیداز دل سرودےکہ جوئے روز گار از چشمہ سارمازل تاب و تب بیشینۂ منابد از ذوق و شوق انظارم(۲)ان سب اشعار میں اقبال کے پیش نظر عقل کا مروجہ تصور تھا، یعنی وہ قوت جو حواس ظاہری کی مدد سے زمان ومکان کے دائرے کے اندر مظاہر کا علم و ادراک حاصل کرنے پر قناعت کرتی ہے، لیکن خود ان کا تصور عقل اس سے جدا ہے۔ ان کے نزدیک عقل حقیقت میں عشق کی ضد نہیں بلکہ اس کی تمہید ہے۔ اگر وہ صحیح راہ پر چلے تو ہمارے دل میں مشاہدۂ حقیقت کی آرزو پیدا کرتی ہے اور اس طرح اس کی حد عشق سے جاملتی ہے، وہ ’’خبر‘‘ پر قانع نہیں بلکہ ذوق ’’نظر‘‘ بھی رکھتی ہے۔ لیکن اس کی پرواز اتنی نہیں کہ مقام نظر کی بلندی تک پہنچ سکے۔عقل ہم عشق است و از ذوقِ نظر بیگانہ نیستلیکن ایں بیچارہ را آں جرأت رندانہ نیستارباب معنی کے دل میں فلسفۂ و حکمت کی قیل و قال بھی کیف و حال پیدا کرتی ہے۔مگر رسم دراہِ فرزانگی ذوق جنوں بخشددل از درسِ میں خرد منداں گریباں چاک می آیدعقل اگر اپنی صحیح فطرت سے منحرف یعنی ذوق نظر سے خالی ہو تو جو علم اس کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے وہ ہماری آنکھوں پر پردہ ڈال دیتا ہے، ہم مظاہر میں الجھ کر حقیقت سے محروم رہ جاتے ہیں، لیکن اگر عقل اپنی منزل مقصد سے واقف ہے تو وہ علم ظاہر کے ذریعہ سے علم باطن کی راہ ہموار کر دیتی ہے اور اس حدتک ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ ہمارے دل میں معرفت حقیقت کی آرزو پیدا کر دے، یہی اس کی منتہائے پرواز ہے۔ یہاں پہنچ کر وہ ہمیں چھوڑ دیتی ہے کہ ہم عشق کے سہارے آگے بڑھتے چلے چائیں۔علم اگر کج فطرت وبد گوہر استپیش چشم ما حجاب اکبر استعلم را مقصود اگرباشد نظرمی شود ہم جادۂ وہم راہبرمی نہد پیش تو از قشردجودتاتو پرسی چلیست رازایں نمودجادہ راہموار ساز دایں چنیںشوق رابیدار سازوایں چنیںعلم تفسیر جہان رنگ وبودیدۂ دل پرورش گیر دازدبر مقام جذب و شوق آرد تراباز چوں جبریل بگذاروتراعقل کا اس سے بھی زیادہ تصور یہ ہے کہ وہ ’’خبر‘‘ اور ’’نظر‘‘ ’’علم و عشق‘‘ دونوں پر جاوی ہے، اس کے دو پہلو ہیں ایک ناسوتی دوسرا لاہوتی۔ ایک پہلو سے دیکھئے تو اس کا عمل ادراک عالم آب وگل سے تعلق رکھتا ہے اور اس میں بھی سطحیات یعنی مظاہر تک محدود ہے۔ دوسرے پہلو سے دیکھئے تو اس کی نظر ظاہر کائنات سے گذر کر اس کی ماہیت و حقیقت میں ڈوب جاتی ہے اور عالم تحت قمر سے گذر کر عالم علوی کی سیر کرتی ہے۔ ایک طرف وہ زمان ومکان کے پردے میں مجاز کے ظنی علم سے آگے نہیں بڑھتی اور دوسری طرف ان پردوں کو اٹھاکر حقیقت کا عینی مشاہدہ کرتی ہے۔ یہی عقل کا دوسرا پہلو ہے، جو سوز محبت سے آشنا اور نور معرفت سے روشن ہے، عشق کہلاتا ہے۔عقل خود میں دگر و عقل جہاں میں دگر استبال بلبل و گرو بازوئے شاہیں دگراستدگر است آنکہ برودانۂ افتادہ زخاکآنکہ گیرو خورش از وانۂ پرویں دگر استدگر است آنکہ زند سیر چمن مثل نسیمآنکہ درشد بہ ضمر گل و نسریں دگر استدگراست آں سوئے نہ پردہ کشا دن نظرےایں سوئے پردہ گمان وظن و تخمیں دگر استاے خوش آں عقل کہ پہنائے دو عالم بااوستنورِ ما فرشہۂ زدل آدم بااوستغرض اقبال کے تصور عقل وعشق کا ماحصل یہ ہے کہ ان دونوں میں کوئی حقیقی فرق نہیں بلکہ صرف مدارج ارتقا کا فرق ہے، ان میں مابہ الامتیاز آرزوئے معرفت کی وہ خاص کیفیت ہے، جسے شاعر نے سوز کہا ہے، اگر عقل میں یہ سوز پیدا ہو جائے تو وہ عشق بن جاتی ہے۔چہ م پرسی میان سینہ و دل چیستخرد چوں سوز پیدا کرو دل شد