عقل و دانش کو زمانے سے چھپا رکھا ہے

عقل و دانش کو زمانے سے چھپا رکھا ہے
خود کو دانستہ ہی دیوانہ بنا رکھا ہے


گھر کی ویرانیاں لے جائے چرا کر کوئی
اسی امید پہ دروازہ کھلا رکھا ہے


بن گئے اونچے محل ان کی عبادت گاہیں
نام دولت کا جہاں سب نے خدا رکھا ہے


قابل رشک سے وہ دختر مفلس جس نے
تنگ دستی میں بھی عزت کو بچا رکھا ہے


جس کے محلوں میں چراغوں کا نہ تھا کوئی شمار
اس کی تربت پہ فقط ایک دیا رکھا ہے


اس سے بڑھ کر تری یادوں کی کروں کیا تعظیم
تیری یادوں میں زمانے کو بھلا رکھا ہے


سرخ رو ہو گئیں تنہائیاں میری داناؔ
اس نے کاندھے پہ مرے دست حنا رکھا ہے