عقیدے بجھ رہے ہیں شمع جاں غل ہوتی جاتی ہے (ردیف .. ی)
عقیدے بجھ رہے ہیں شمع جاں غل ہوتی جاتی ہے
مگر ذوق جنوں کی شعلہ سامانی نہیں جاتی
خدا معلوم کس کس کے لہو کی لالہ کاری ہے
زمین کوئے جاناں آج پہچانی نہیں جاتی
اگر یوں ہے تو کیوں ہے یوں نہیں تو کیوں نہیں آخر
یقیں محکم ہے لیکن ضد کی حیرانی نہیں جاتی
لہو جتنا تھا سارا صرف مقتل ہو گیا لیکن
شہیدان وفا کے رخ کی تابانی نہیں جاتی
پریشاں روزگار آشفتہ حالاں کا مقدر ہے
کہ اس زلف پریشاں کی پریشانی نہیں جاتی
ہر اک شے اور مہنگی اور مہنگی ہوتی جاتی ہے
بس اک خون بشر ہے جس کی ارزانی نہیں جاتی
یہ نغمہ نغمۂ بیداریٔ جمہور عالم ہے
وہ شمشیر نوا جس کی درخشانی نہیں جاتی
نئے خوابوں کے دل میں شعلۂ خورشید محشر ہے
ضمیر حضرت انساں کی سلطانی نہیں جاتی
لگاتے ہیں لبوں پر مہر ارباب زباں بندی
علی سردارؔ کی شان غزل خوانی نہیں جاتی