عقب سے وار تھا آخر میں آہ کیا کرتا

عقب سے وار تھا آخر میں آہ کیا کرتا
کسی بھی آڑ میں لے کر پناہ کیا کرتا


غریب شہر تھا آنکھوں میں تھی انا زندہ
سزائے موت نہ دیتا تو شاہ کیا کرتا


مرے خلوص کو جو سکۂ غرض سمجھا
میں ایسے شخص سے آخر نباہ کیا کرتا


یوں اس کے عفو کا دامن بھی داغدار نہ ہو
یہی خیال تھا قصد گناہ کیا کرتا


یہ تار تار شب و روز ریزہ ریزہ حیات
میں اپنے حال پر آخر نگاہ کیا کرتا


جو زندگی سے نہ پائے نجات کی راہیں
شکیلؔ اس کو زمانہ تباہ کیا کرتا