اپنی والدہ کی یاد میں

کہاں گیا وہ زمانہ کہ جس کی یاد میں آج
بھلائے بیٹھا ہوں خود کو پتا نہیں ملتا


گئی کہاں ہے وہ اب صورتیں محبت کی
زمانے بھر میں کہیں نقش پا نہیں ملتا


میں پوچھوں کس سے پتا اور کہاں کہاں ڈھونڈوں
وہاں کا کوئی بھی آیا گیا نہیں ملتا
وہ اسپتال کی شب بھی تھی کیا قیامت کی
وہاں قفس سے جو طائر اڑا نہیں ملتا


نحیف بازو تھے میرے لیے حصار اماں
مزہ کہیں بھی اس آغوش کا نہیں ملتا


وہ بجھتی آنکھیں تھی میرے لیے چراغ‌‌ حیات
نگاہ مہر کا اب وہ دیا نہیں ملتا


تمیز کیسے کروں رہزن و رفیق میں اب
رہ حیات کا وہ رہنما نہیں ملتا


بس ایک دم سے وہ بدلی ہوا زمانے کی
کہ شیخ ملتے ہیں دل با صفا نہیں ملتا


بلا کا شور ہے الفت کے میکدے میں مگر
شراب ملتی ہے لیکن نشہ نہیں ملتا


ہوئی ہے روح وہ اب جذب روح پاک عظیم
ملا جو ذات میں اس کی جدا نہیں ملتا


وہ گویا ابر کا سایا تھا لے اڑی جو ہوا
بکھر کے پھول کا جیسے پتا نہیں ملتا


وہ ایک نغمہ تھا گم ہو گیا فضاؤں میں
کہ جیسے بحر میں قطرہ گرا نہیں ملتا


تلاش ان کی یہاں ہے حبیبؔ لا حاصل
کہ چشم تر سے جو آنسو گرا نہیں ملتا