اپنی رسوائی کا احساس تو اب کچھ بھی نہیں

اپنی رسوائی کا احساس تو اب کچھ بھی نہیں
ہونٹ ہی سن ہیں خموشی کا سبب کچھ بھی نہیں


یہ اجالوں کے جزیرے یہ سرابوں کے دیار
سحر‌ و افسوں کے سوا جشن طرب کچھ بھی نہیں


بہہ گئے وقت کے سیلاب میں جسموں کے سہاگ
اب نہ وہ چشم نہ رخسار نہ لب کچھ بھی نہیں


ریزہ ریزہ ہے کسی خواب‌ زر افشاں کا طلسم
فصل گل انجم و مہتاب یہ سب کچھ بھی نہیں


میرے آنسو انہیں کرتے ہیں اجاگر کچھ اور
پہلے جو لوگ سبھی کچھ تھے اور اب کچھ بھی نہیں


ہم پہ تو صبح سے روشن تھی یہ شام بے کیف
تم کو اس شام سے اندازۂ شب کچھ بھی نہیں


شہر دل شہر خموشاں کی طرح ہے گنجان
کتنا آباد مگر شور‌ و شغب کچھ بھی نہیں


یہ جہاں عالم اسباب ہے ناداں نہ بنو
کون مانے گا تباہی کا سبب کچھ بھی نہیں


رنگ و بو گل سے مکر جائیں تو رہتا کیا ہے
آگ بجھ جائے تو سورج کا لقب کچھ بھی نہیں


خول ہی خول ہے نوخیز دبستان خیال
شور ہی شور ہے تخلیق ادب کچھ بھی نہیں


گم رہو گم کہ یہاں جرم ہے اظہار کمال
چپ رہو چپ کہ یہاں نام و نسب کچھ بھی نہیں


میری تخریب سے یاروں کا بھلا کیا ہوگا
میری پونجی تو بجز ذوق ادب کچھ بھی نہیں


اس طرف وا ہے در رحمت یزداں دانشؔ
اس طرف وسعت دامان طلب کچھ بھی نہیں